سوال
(1)میں کنسٹرکشن ایڈوائزری ، کنسلٹنسی سروسز کرتا ہوں اور اپنے کلائنٹس کو پیپر ورک / دستاویزات فراہم کرتا ہوں۔ اس کاروبار میں اثاثوں کی خرید و فروخت نہیں ہے۔مجھے تعمیراتی منصوبوں میں اس طرح کی مشاورتی خدمات کے لیے کل تعمیراتی بجٹ سے 2-4 % بلڈر یا بلڈنگ مالک کلائنٹ سے ملتا ہے۔اب یہ 2-4٪ ہمارے لیے 30 ملین مالیت کے منصوبے کے مواقع ہیں۔یہاں تک کہ اگر ہمیں اگلے ایک سال میں اس سے صرف 3 ملین ملتے ہیں ، اور ہم اس 3 ملین میں سے 10 فیصد اپنے سرمایہ کاروں کو دیتے ہیں تب بھی وہ پہلے سال میں اپنی سرمایہ کاری پر کم از کم 70 فیصد ریٹرن حاصل کرتے ہیں جس پر وہ بہت خوش ہیں۔
کیا یہ ان سرمایہ کاروں کو 10 فیصد منافع دینا صحیح ہے جب وہ اس پر راضی ہیں؟ کیوں کہ یہ ۱۰%منافع انکی سرمایہ کاری پر کم از کم 70 فیصد ریٹرن ہے جس سے وہ راضی ہیں۔
(2)کیونکہ یہ ذاتی سرمایہ کاری ہے جہاں سرمایہ کار صرف مجھے بطور فرد سرمایہ کاری دے رہے ہیں نہ کہ میری کمپنی کے نام کو۔ یہ سرمایہ کار اگلے 5 سالوں کے لیے سرمایہ کاری کا یہ معاہدہ کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں ،جہاں میں انہیں 10 فیصد منافع دینے کا پابند ہوں گا، چاہے میں کاروبار کرتا رہوں یا نوکری کروں۔ یہاں تک کہ اگر میں اپنی کمپنی تبدیل کروں یا کوئی دوسرا کاروبار شروع کروں، تب بھی یہ سرمایہ کار 5 سال تک میرے مجموعی منافع یا سالانہ تنخواہ کی بچت پر 10 فیصد منافع مانگ رہے ہیں۔ کیا یہ اسلامی نقطہ نظر سے جائز ہے؟
جواب
الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
دو سوال پوچھے گئے ہیں، بالترتیب دونوں کے جواب حسبِ ذیل ہیں:
(1) سائل کنسٹرکشن ایڈوائزری کی کنسلٹنسی فیس لیتا ہے، جو کہ کل منصوبے کی مالیت کا ۲-۴% ہوتا ہے، یہ درست ہے۔ اگر منافع کا دو سے چار فیصد مقرر کرے گا تو پھر نفع و نقصان کی شراکت ہوگی نہ کہ صرف نفع کی، کیونکہ اس صورت میں سائل مشارکت کررہا ہے، اپنی سروس کی اجرت وصول نہیں کررہا۔ واللہ تعالی اعلم
(2) اس میں معلوم ہوتا ہے کُچھ سرمایہ کار سائل کے کاروبار (بلڈنگ کنسیلٹنسی) میں اپنے سرمائے کے ساتھ شریک ہونا چاہتے ہیں، جس میں اُنھیں اچھا منافع (۱۰%) مل رہا ہے۔ انھیں سائل کے دفتر یا آفس سے غرض نہیں کہ وہ کہاں رکھتا ہے۔ البتہ وہ اسے ان تمام کاروباری اُمور کے لیے ۱۰ فیصد منافع کی شرط پر سرمایہ دینے کے لیے تیار ہیں، یہ مضاربت ہے۔ سائل مُضارِب جبکہ یہ سرمایہ کار رَبُّ المال ہیں۔ اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ یہ سرمایہ کار سائل کے کاروبار میں بالعموم دس فیصد نفع و نقصان کی بنیاد پر شریک ہوں۔ یعنی سائل جتنے بھی ایسے پروجیکٹ کرتا ہے ان کے مجموعی نفع و نقصان میں دس فیصد کی شراکت ہو، ا گرچہ نفع کا امکان سو فیصد نظر آئے، یہاں نقصان کی شرط لازم ہے ورنہ سود ہوگا۔ نقصان کی صورت میں سائل کی محنت جبکہ سرمایہ کاروں کا سرمایہ بقدر نقصان ضائع جائے گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ سائل انھیں کسی خاص تعمیراتی منصوبے میں شرکت کی دعوت دیتا ہے جس کی کنسلٹنسی اُسے ملی۔ اس میں بھی سائل کے ساتھ یہ انویسٹر اپنی رقم کے بالمقابل نفع و نقصان کی بنیاد پر ہی شرکت کریں گے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ سائل کو کچھ منصوبے مل چُکے ہیں یا ملنے کی توقع ہے ،جن کی فیس اُس نے آئندہ سالوں میں وصول کرنی ہے، لیکن اس دوران اُسے دفتری اُمور چلانے کے لیے رقم درکار ہے۔ سرمایہ کار اُسے اِس شرط پر یہ رقم مہیا کرنا چاہتے ہیں، کہ وہ متوقع قابل وصول رقم سے ہر صورت انہیں اتنے سال تک دس فیصد دیتا رہے۔ انہیں نہ سائل کے کام سے غرض ہے نہ اُس کی کمپنی سے۔ یہ بھی درحقیقت قرض پر فائدہ ہے اور خالص سود ہے۔
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ (رئیس اللجنۃ)
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ