(حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کی نہایت ہی خوبصورت اور محسن شخصیت ہیں جن کے وسائل اور اسباب سے اسلام کو اس وقت فائدہ پہنچا جب کوئی متمول شخص اس کے لیے تیار نہ تھا،ان کی سخاوت اور تونگری  کی وجہ سے زبان نبوت سے اعلان ہوا کہ: “عثمان  اس کے بعد کوئی عمل نہ بھی کرے تو ان کے لیے کافی ہے۔” ایسے جلیل المرتبت صحابی پر مخالفین  عناد اور بغض نکالتے ہیں جن کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جاسکتا، یہ شخصیت اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی اس قدر مظلوم رہی اور حاکم وقت ہونے کے باوجود مظلومانہ شہید کر دیے گئے۔ ان کے اوپر اچھالے جانے والے کیچڑ کا جواب دینے کا بہترین انداز یہ ہے کہ ان کے فضائل، شمائل ، حسنات اور خوبیوں کو بیان کیا جائے۔ ادارہ)

سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ کے زمانے سے بات شروع کرتے ہیں، امام حسن بصری کے سن شعور کی آمد تھی، امام رحمہ اللہ اس زمانے کا نقشہ کچھ یوں کھینچے ہیں، فرماتے ہیں سیدنا عثمان کے زمانے میں :
“ہر دوسرے روز پَو پُھوٹتے ہی اعلان عام ہوجاتا، لوگو ! آؤ، عطیے لے جاؤ، کپڑے لے جاؤ، مخلوق خدا آتی، مال تقسیم کر دیا جاتا۔ یہاں تک کہ اوس کے لوگوں نے سنا، لوگو ! شہد لے جاؤ، گھی لے جاؤ۔ دشمن کو نکال دیا گیا تھا، مال و زر کی بہتات تھی، اور سب سے مزے کی بات کہ مسلمان کو مسلمان سے خوف کوئی نہیں تھا، وہ بھائی بھائی تھے، ایک دوسرے کے مددگار تھے۔
(تاریخ المدینة : 1797، وسندہ حسن)
دوخوبیاں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا امتیاز رہی ہیں۔ باحیا تھے اور باوفا تھے۔ اسلام کو جب بھی مشکل پیش آئی، اپنا مال خدا کی راہ میں لٹوا میں دیا۔ مسلمان کا خون بہتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ تمام عمر مسلمانوں کو ایک تسبیح کے دھاگے میں پروئے رکھا۔
ثقہ تابعی عامر بن عبدہ رحمہ اللہ نے انہیں دیکھا تو سفید لباس زیب تن کیا ہوا تھا، خوشبو کے ہلّے آتے، قرآن سنا رہے تھے، کہیں بھول جاتے تو لوگ لقمہ دیتے۔
(تاریخ دمشق : 234/39، وسندہ صحیح)
احنف بن قیس رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی تو زرد چادر اوڑھ رکھی تھی۔ سر ڈھانپا ہوا تھا۔
(سنن الکبری للنسائی : 4391، وسندہ حسن)
فرماتے ہیں : میں نے اسلام میں یا جاہلیت میں کبھی زنا نہیں کیا۔
(المستدرک علی الصحیحین : 37)
رسول اللہﷺ کے دور میں ان کا کردارکیا رہا، یہ تو سب جانتے ہیں، مسجد نبوی کی توسیع سے لے کر پانی کے کنویں تک اور کنویں سے لے کر اونٹوں کے غلے تک عثمان ہی تو نظر آتے ہیں۔
رسول اللہﷺ کا آپ کے ساتھ جو سلوک تھا وہ بھی سب کو معلوم، بدر میں حاضر نہ ہوں تو ان کا حصہ مقرر کردیا جائے، ایک بیٹی فوت ہوجائے تو دوسری نکاح میں دے دی جائے! میں رسول اللہﷺ کے بعد کے زمانوں کا عثمان دیکھنا چاہتا ہوں۔
اگر کوئی پوچھے، اخلاق، کردار، عزت، عظمت، شرافت، محبت، وفا، ایثار اور جو و سخا کو ایک پیکر میں ملبوس کر کے دکھاو، تو میں اللہ کے پیمبر کے دوہرے داماد کا سراپا سامنے کردوں گا۔
وفا ایسی کہ اپنی جان تک کو خطرہ ہے، مگر کملی والے نے کہا تھا، خلعت خلافت نہیں اتارنی، سو نہیں اتاری۔
حالات پر ایسی دور رس نگاہیں، کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کا عہد نامہ آپ سے لکھوایا تو آپ نے خلیفہ کے نام کی جگہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نام لکھ دیا۔ اہلیت ایسی کہ یار غار رسول تڑپ اٹھا، فرمایا : عثمان اگر آپ اپنا نام بھی لکھ دیتے تو یقینا آپ اس کے اہل تھے۔
(تاریخ دمشق : 185/39، وسندہ حسن)
محبت ایسی کہ تمام عمر کملی والے کے آثار کا تتبع کرتے رہے۔ کبھی لوگوں کو وضو کا طریقہ سکھا رہے ہوتے، تو کبھی عقیدہ توحید کی تعلیم دیتے۔ (صحيح مسلم : 26) کبھی باقیات صالحات کی تعلیم دیتے۔ (مسند البزار : 387)
حدیثیں بہت یاد تھیں، پر “من کذب علي…” والی وعید سے ڈرتے تھے، سو بیان کم کرتے تھے۔
(مسند احمد : 469، وسندہ حسن)
قرآن سے اتنی محبت کہ مورخ نے جھوم کر ان کو جامع القرآن لکھا، اپنی رعایا سے سوال کرتے، قرآن کتنا یاد ہے آپ کو؟
(موطا امام مالک : 7، وسندہ صحیح)
سورہ یوسف کی تلاوت کا معمول بنا لیا تھا، فرافضہ بن عمیر کہتے ہیں ، میں نے سورہ یوسف یوں یاد کی کہ عثمان رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میں اکثر اس کی تلاوت کیا کرتے تھے، وہیں سے میں نے یاد کر لی۔
(موطا امام مالک : 35، وسندہ صحیح)
اعتماد اور حیا داری کا جونمونہ کملی والے کے زمانے میں دیکھا گیا تھا، تا دم آخریں قائم رہا۔ امہات المومنین نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حج پر جانے کی اجازت مانگی تو آپ نے ان کے ساتھ سیدنا عثمان اور سیدنا عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہما کو روانہ کیا، یہ حیا کا تاج دار وادی کی ایک نکڑ پر کھڑا ہوتا تھا، جہاں سے امہات کی اونٹنیوں کا ہودج نظر آتا، اور ان تک کسی کی نظر نہیں جاتی تھی۔
(سنن الکبری للبیقہی : 438)
خلیفہ تھے، مگر خود کو ہمیشہ محاسبے کے لئے پیش کیا، ایک موقع پر فرمایا : ”یہ میرے دو قدم ہیں، اگر تمہیں کتاب اللہ سے انہیں پابند سلاسل کرنے کا جواز ملے تو کر دینا۔”
(فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل : 897، وسندہ صحیح)
کبھی اندر کی تڑپ کا اظہار یوں کرتے، فرماتے :
”میں نے اگر کسی پر ظلم کیا تو اللہ سے معافی مانگتا ہوں اور اگر مجھ پر کوئی ظلم کیا گیا تو میں اسے معاف کر رہا ہوں۔”
(تاریخ ابی زرعہ : 92/1، وسندہ صحیح)
قبر پر کھڑے ہوتے تو آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتیں، کہتے ، یہ آخرت کی منزلوں سے پہلی منزل ہے۔ جو اس میں کامیاب رہ گیا، آگے بھی کامیاب ہوگا، جو اس میں پکڑا گیا، آگے بھی پکڑ ا جائے گا۔
(مسند احمد : 454، وسندہ حسن)
ایک غلام نے ولیمے کی دعوت پر بلایا تو چلے گئے، فرمایا : میں روزے سے ہوں، مگر دعوت قبول کر کے آگیا ہوں، اب آپ کے برکت کی دعا کئے دیتا ہوں۔
(الزھد لاحمد بن حنبل : 689)
مسجد نبوی میں پتھر پڑے تھے، مالک ابو عامر نے دیکھا، خلیفہ وقت اپنے جوتوں سے وہ سنگریزے سیدھے کر رہا تھا۔
(موطا امام مالک : 45، وسندہ صحیح)
موسی بن طلحہ بیان کرتے ہیں، عثمان رضی اللہ عنہ منبر پر تھے، موذن اذان کہہ رہا تھا اور آپ لوگوں سے ان کے احوال اور بازار میں چیزوں کے بھاؤ پوچھ رہے تھے۔
(فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل : 812، وسندہ حسن)
ولید بن عقبہ آپ کے بھائی تھے، انہوں نے شراب پی تو ان کو کوڑے لگوائے۔
(فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل : 791 ، وسندہ صحیح)
اسلام کی بے پایاں وسیع سلطنت کے بلا شرکت غیرے حکمران، مگر لوگوں کے عام سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔
مصری لونڈے جب آپ کے گھر کا محاصرہ کر رہے تھے تو انہوں نے کچھ سوال پوچھے، آپ ان کے جوابات دیتے رہے، انہوں بعض ایسے اعتراض بھی کئے، جن کا جواب دینے کی بجائے آپ نے اللہ کی طرف چہرہ اٹھا دیا، فرمایا : استغفر اللہ واتوب الیہ!
(مصنف ابن ابی شیبۃ : 38679، وسندہ صحیح)
یہ مصری لونڈے اسی منافق جماعت کے فرد تھے، جن کے متعلق رسول اللہﷺ نے پیشینگوئی کر دی تھی کہ عثمان ! اللہ آپ کو خلافت کی قمیص دیں گے، اگر منافق تجھے کہیں کہ وہ قمیض اتار، تو وہ قمیض اتارنی نہیں ہے۔
(تاریخ المدینہ : 1067، وسندہ صحیح)
انہوں نے مدینے میں کہرام مچا رکھا تھا، اس کے پیچھے کام کر رہی تھی خارجی ذہنیت، عجیب قسم کے اعتراضات تھے۔ جب انسان تقوے کے زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے، پھر عجیب و غریب تاویلوں سے اگلوں کو کافر کرنے کے درپے رہتا ہے۔
جناب عثمان رضی اللہ عنہ پر یہ بھی اعتراض تھا کہ انہوں نے چراگاہ کو وسعت کیوں دی ہے، وہ تو قرآن کے خلاف ہے۔ حالاں کہ وہ چراگاہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بنوا کر گئے تھے۔
(تاریخ المدینہ: 1139/3، وسندہ صحیح)
باغیوں کو سمجھا رہے تھے کہ اپنے آپ کو پاک نہ کہو اور انہ امت کو برباد کرو۔ صحابہ آپ کے ساتھ تھے، مگر یہاں بھی آپ پر کملی والی کی محبت غالب رہی، خلعت خلافت اتاری نہیں، مگر اس خلعت کی خاطر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں خون بہانا بھی گوارا نہیں کیا۔ بلکہ لوگوں سے کہہ دیا تھا۔ میرا سب سے زیادہ خیر خواہ وہ ہوگا، جس نے اپنے ہتھیار اور اپنے ہاتھ کو روکے رکھا۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ : 38، وسندہ صحیح)
شام میں خطباء کا اجتماع تھا، سیدنا مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کیا، رسول اللہﷺنے فرمایا :
فتنے کے دور میں یہ چادر والا حق پر ہوگا، وہ چادر والے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔
(سنن الترمذی : 2704، وسندہ صحیح)
اسی طرح آقائے کریمﷺ نے فرمایا : فتنے کے دور میں عثمان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ مل جانا۔
(صحیح ابن حبان : 6914، وسندہ حسن)
میرے عثمان نے کسی حرام کا ارتکاب نہیں کیا تھا، صرف پیسوں کی خاطر خلیفہ رسول کے خلاف شورش برپا کر دی گئی تھی، اسی لئے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک خارجی سے کہہ دیا تھا، عثمان اگر تم کو دولت دے دیں گے تو تم ان کے ساتھ ہو جاؤ گے!! کیا تم فارس و روم کی طرح بننا چاہتے ہو، ان میں جو بھی امیر بنتا ہے، اس کو قتل کردیا جاتا ہے۔
(تاریخ المدینہ : 1115، وسندہ صحیح)
البتہ حالات کے اس نبض شناس نے یہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر کبھی مل کر نماز ادا نہیں کر سکو گے، نہ مل کر دشمن سے جہاد کر سکو گے۔
(الطبقات لابن سعد : 52/3، وسندہ حسن)
ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہ محاصرے کے دنوں میں آپ کو کھانا پہنچایا کرتی تھیں، آپ نے سوچا میں باغیوں ظالموں کو عثمان کے گھر سے ہٹا دیتی ہوں، اشتر نخعی نے دیکھا تو آپ کے خچر پر ضربیں ماریں، تب آپ فرمانے لگیں : مجھے واپس لے جاؤ ، کہیں یہ کتا مجھے رسوا نہ کر دے۔
(تاریخ المدینہ 4/1311، وسندہ حسن)
اب شہادت کا وقت قریب آرہا تھا، روزہ رکھ چھوڑا تھا، کہ نیند آگئی، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، فرمایا : عثمان ! آج افطاری ہمارے یہاں کیجئے گا۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ : 30502، وسندہ صحیح)
باغی قصرِ خلافت پر محاصر ہو گئے، رسول اللہﷺ کے دوہرے داماد نے انہیں سلام کہا، انہوں نے جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا۔ ایسا بھی کوئی ظالم ہوسکتا ہے؟! عثمان ان کو اپنی نیکیاں یاد دلاتے رہے، نصیحت کرتے رہے، مگر ان پر کچھ اثر نہیں ہورہا تھا۔ وہ نبی سے اپنا رشتہ بتاتے، باغی بات سنی ان سنی کر دیتے۔ آپ نے دروازہ کھولا، ایک شخص داخل ہوا، فرمایا : میرا اور تمہارا فیصلہ یہ قرآن کر دے گا، وہ یہ سن کر باہر نکل گیا، پھر ایک شخص داخل ہوا، اسے سیاہ موت کہا جاتا تھا۔ اس نے آپ کا گلا دبا یا، وہ باہر چلا گیا، کہتا تھا: اس شخص سے زیادہ نرم گلا کسی کا نہیں دیکھا گیا۔ پھر ایک اور بندہ آتا ہے، تلوار چلاتا ہے، عثمان ہاتھ سے تلوار روکنے کی کوشش کرتے ہیں، ہاتھ کٹ جاتا ہے۔ تو بے ساختہ فرماتے ہیں بخدا ! یہ وہ ہاتھ تھا جس نے سب سے پہلے قرآن کی مفصل سورتوں کی کتابت کی تھی۔ ظالموں نے پھر وار کر کے شہید کردیا، خون کے قطرے قرآن کے ان لفظوں پہ گرے :
فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ” اللہ تجھے ان سے کافی ہوجائے گا، یقینا وہ سننے والا جاننے والا ہے۔”
(تاریخ المدینہ : 1310/ 4، وسندہ صحیح)
امام یحییٰ بن بکیر کہتے ہیں، یہ اٹھارہ ذی الحجہ کا دن تھا۔
(معرفۃ الصحابہ لابی نعیم : 251، وسندہ صحیح)
اللہ آپ کے دشمنوں سے کافی ہوگیا، ایسا کافی ہوا کہ قیامت تک کے لئے ان کا نام ونشان عبرت بنا دیا گیا۔ عثمان کل بھی زندہ تھے، عثمان آج بھی زندہ ہیں، ہاں مگر ان پر ہونے والا ظلم صرف ان پر ہونے والا ظلم نہیں تھا، اس ظلم نے امت کا چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا، کتنی جنگیں ہوگئیں، فتنے برپا ہوگئے۔ منذر بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
”ہم مدینہ میں تھے کہ وہاں ایک شخص سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو گالی دینے لگا، ہم نے روکا مگر وہ باز نہیں آیا، تو اچانک بادل گرجا، بجلی آئی اور اس شخص کو جلا کر رکھ دیا۔
(الثقات لابن حبان : 7/105، وسندہ حسن)
سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر ملی تو تڑپ اٹھے، فرمایا : ظالمو! تم نے عثمان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، اگر احد پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سرک جائے تو کچھ برا نہیں ہوگا۔
(تاریخ المدینہ : 1242، وسندہ صحیح)
سلمہ بن اکوع جن کی بہادری اپنی مثال آپ تھی، عثمان کے بعد ہمت ہار گئے، ربذہ چلے گئے اور باقی ماندہ زندگی وہیں گزار دی۔
(تاریخ المدینہ : 4/1242، وسندہ صحیح)
اسلام کے چوتھے خلیفہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیعت سب سے پہلے کی تھی۔ (صحیح البخاری : 3700) محاصرے کے دنوں میں سیدنا عثمان کی طرف جانے لگے، پتھروں سے جسم نڈھال کروا لیا۔ (تاریخ دمشق : 368/39، وسندہ حسن) اب جب انہیں عثمان کی شہادت کی خبر پہنچی، تو اللہ کے حضور اپنی براءت پیش کر دی، فرمایا: ”اللہ! میں تیرے سامنے عثمان کے خون سے براء ت کا اظہار کرتا ہوں، میں نے نہ تو انہیں قتل کیا اور نہ ان کے قتل پر کسی کو ابھارا۔” (الطبقات لابن سعد : 50/3، وسندہ صحیح)
حسن بن علی اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما عثمان کے دفاع میں زخمی ہوگئے۔
(تاریخ المدینہ : 3/1131، وسندہ صحیح)
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے آپ کاجنازہ پڑھایا، یہ جناب عثمان رضی اللہ عنہ کی وصیت تھی، پھر رات کے اندھیرے میں اس شخص کو دفنا دیا گیا، جس کو اسلام نے ذو النورین (دو روشنیوں والا) کا لقب دیا تھا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را!

ابو الوفا محمدحماد اثری