دجال کی بے بسی!

فتنہ دجال ایک عظیم فتنہ ہے ۔دجّال کا فتنہ انسانی تاریخ کی ابتدا سے لے کر انتہا تک کے تمام فتنوں سے بڑا اور خطرناک فتنہ ہے . جس کی بڑائی اور شدّت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو فتنہ دجال سے ڈرایا ہے ۔دجال کا معنی ہے دھوکہ اور فریب دینے والا جو لوگوں کو اپنی تلبیس کے ذریعے گمراہ کرے گا ۔اس کی علامت یہ ہوگی اس کے دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا جسے ہر مؤمن شخص پڑھ لے گا خواہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ۔ دجال کو اللہ تعالی بعض اختیارات دیں گے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو آزمائے گا ۔درحقیقت فتنہ دجال ایک عظیم آزمائش ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نیک اور بد کی تمیز کریں گے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ جنت اور آگ آنکھ کی بصارت کے مطابق بنا دی، لیکن اس کی جنت آگ ہے اور اس کی آگ جنت ہے، پس جو اس کی اطاعت کرے گا وہ اس جنت میں داخل ہو گا جیسے وہ لوگوں کو دیکھتا ہے، لیکن یہ ایک ایسی جنت ہے۔ جس میں جلتی ہوئی آگ ہے اور جو اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ اس کی آگ میں داخل ہوتا ہے۔آگ وہ ہے جسے لوگ دیکھتے ہیں، لیکن یہ جنت اور اچھا، میٹھا پانی ہے۔
لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دجال کے پاس الٰہی تصرفات ہوں گے ۔حالانکہ دجال کے پاس بعض وہ چند اختیارات ہونگے جو اللہ تعالیٰ اس کو دے گا ۔کئی مقامات پر بے بس ہوگا ۔اگر اس کے پاس الٰہی تصرفات ہوتے تو اس کو بے بسی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔
دجال کی بے بسی کے حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔

(1): دجال اس قدر اللہ تعالیٰ کے سامنے بے بس و مجبور ہوگا کہ اپنی آنکھوں کے درمیان سے لکھا ہوا کافر نہیں مٹا سکے گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” الدَّجَّالُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ك ف ر. أَيْ كَافِرٌ “. (صحيح مسلم : 2933)
دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کفر یعنی کافر لکھا ہوا ہوگا۔

عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ : كُنَّا عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَذَكَرُوا الدَّجَّالَ أَنَّهُ قَالَ : ” مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ “. فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لَمْ أَسْمَعْهُ وَلَكِنَّهُ قَالَ : ” أَمَّا مُوسَى كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ إِذِ انْحَدَرَ فِي الْوَادِي يُلَبِّي “.
(صحيح البخاري : 1555)
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر تھے۔ لوگوں نے دجال کا ذکر کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا۔ تو ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں نے تو یہ نہیں سنا۔ ہاں آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ گویا میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ رہا ہوں کہ جب آپ وادی میں اترے تو لبیک کہہ رہے ہیں۔

(2): دجال رب ہونے کا دعویٰ کرے گا حالانکہ وہ دجال کانا ہوگا اور اس کی آنکھ بھی پھوٹی ہوئی ہوگی۔ کانا ہونا عیب اور نقص ہے اللہ تعالیٰ تمام عیوب اور نقائص سے پاک ہے ۔دجال اس قدر مجبور ہوگا کہ اپنی آنکھ کو درست بھی نہیں کرسکے گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” الدَّجَّالُ مَمْسُوحُ الْعَيْنِ، مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ “. ثُمَّ تَهَجَّاهَا : ” ك ف ر، يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُسْلِمٍ “. (صحيح مسلم : 2933)
دجال کی ایک آنکھ اندھی ہے اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہے پھر اس کے ہجے کئے یعنی ک، ف، ر اور ہر مسلمان اسے پڑھ لے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” إِنَّ اللَّهَ لَا يَخْفَى عَلَيْكُمْ، إِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ – وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى عَيْنِهِ – وَإِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ “. (صحيح البخاري 7407)
تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے اور آپ نے ہاتھ سے اپنی آنکھ کی طرف اشارہ کیا اور دجال مسیح کی دائیں آنکھ کانی ہوگی، جیسے اس کی آنکھ پر انگور کا ایک اٹھا ہوا دانہ ہو۔

(3): دجال سورة الکھف کا مقابلہ نہیں کر سکے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ “.
(صحيح مسلم : 809)
جو آدمی سورت کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرلے گا وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔

(4): دجال کے بے بس ہونے کی یہ بھی دلیل ہے کہ چالیس دنوں میں پوری دنیا کا چکر لگانے کے باوجود بھی مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ رُعْبُ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، لَهَا يَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ، عَلَى كُلِّ بَابٍ مَلَكَانِ “.
(صحيح البخاري 1879 ،7125)
“مدینہ والوں پر دجال کا رعب نہیں پڑے گا اس دن مدینہ کے سات دروازے ہوں گے ہر دروازے پر دو فرشتے پہرہ دیتے ہوں گے۔”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” يَجِيءُ الدَّجَّالُ حَتَّى يَنْزِلَ فِي نَاحِيَةِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِينَةُ ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ كُلُّ كَافِرٍ وَمُنَافِقٍ “. (صحيح البخاري : 7124)
دجال آئے گا اور مدینہ کے ایک کنارے قیام کرے گا، پھر مدینہ تین مرتبہ زلزلہ آئے گا اور اس کے نتیجے میں ہر کافر اور منافق نکل کر اس کی طرف چلا جائے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” عَلَى أَنْقَابِ الْمَدِينَةِ مَلَائِكَةٌ، لَا يدخلها الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُ “.(صحيح البخاري 1880)
مدینہ کے راستوں پر فرشتے ہیں نہ اس میں طاعون داخل ہو سکتا ہے نہ ہی دجال۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” الْمَدِينَةُ يَأْتِيهَا الدَّجَّالُ، فَيَجِدُ الْمَلَائِكَةَ يَحْرُسُونَهَا، فَلَا يَقْرَبُهَا الدَّجَّالُ “. قَالَ : ” وَلَا الطَّاعُونُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ “.
(صحيح البخاري : 7134)
دجال مدینہ تک آئے گا تو یہاں فرشتوں کو اس کی حفاظت کرتے ہوئے پائے گا چناچہ نہ دجال اس کے قریب آسکتا ہے اور نہ طاعون، انشاء اللہ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ، إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ، لَيْسَ لَهُ مِنْ نِقَابِهَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ صَافِّينَ يَحْرُسُونَهَا، ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِينَةُ بِأَهْلِهَا ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ فَيُخْرِجُ اللَّهُ كُلَّ كَافِرٍ وَمُنَافِقٍ “.
(صحيح البخاري : 1881)
کوئی ایسا شہر نہیں ملے گا جسے دجال پامال نہ کرے گا، سوائے مکہ اور مدینہ کے، ان کے ہر راستے پر صف بستہ فرشتے کھڑے ہوں گے جو ان کی حفاظت کریں گے پھر مدینہ کی زمین تین مرتبہ زلزلہ آئے گا۔ جس سے ایک ایک کافر اور منافق کو اللہ تعالیٰ اس میں سے باہر کر دے گا۔

(5):دجال مجاہد کو دوبارہ قتل نہیں کر سکے گا ۔

عن أبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا طَوِيلًا عَنِ الدَّجَّالِ، فَكَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا بِهِ أَنْ قَالَ : ” يَأْتِي الدَّجَّالُ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ بَعْضَ السِّبَاخِ الَّتِي بِالْمَدِينَةِ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ، أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ، فَيَقُولُ : أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا عَنْكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ. فَيَقُولُ الدَّجَّالُ : أَرَأَيْتَ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ، هَلْ تَشُكُّونَ فِي الْأَمْرِ ؟ فَيَقُولُونَ : لَا. فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ، فَيَقُولُ حِينَ يُحْيِيهِ : وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْيَوْمَ. فَيَقُولُ الدَّجَّالُ : أَقْتُلُهُ فَلَا أُسَلَّطُ عَلَيْهِ “.
(صحيح البخاري : 1882,7132)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے دجال کے متعلق ایک لمبی حدیث بیان کی، آپ ﷺ نے اپنی حدیث میں یہ بھی فرمایا تھا کہ دجال مدینہ کی ایک کھاری شور زمین تک پہنچے گا اس پر مدینہ میں داخلہ تو حرام ہوگا۔ (مدینہ سے) اس دن ایک شخص اس کی طرف نکل کر بڑھے گا، یہ لوگوں میں ایک بہترین نیک مرد ہوگا یا (یہ فرمایا کہ) بزرگ ترین لوگوں میں سے ہوگا وہ شخص کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے متعلق ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اطلاع دی تھی دجال کہے گا کیا میں اسے قتل کر کے پھر زندہ کر ڈالوں تو تم لوگوں کو میرے معاملہ میں کوئی شبہ رہ جائے گا؟ اس کے حواری کہیں گے نہیں، چناچہ دجال انہیں قتل کر کے پھر زندہ کر دے گا۔ جب دجال انہیں زندہ کر دے گا تو وہ بندہ کہے گا بخدا اب تو مجھ کو پورا حال معلوم ہوگیا کہ تو ہی دجال ہے دجال کہے گا لاؤ اسے پھر قتل کر دوں لیکن اس مرتبہ وہ قابو نہ پا سکے گا۔

(6): دجال عیسی علیہ السلام کا سن کر نمک کی طرح پگھلنے لگے گا ۔ جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّهُمْ، فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللَّهِ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ، وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ، فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ “.
(صحيح مسلم : 2897)
عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور مسلمانوں کی نماز کی امامت کریں گے پس جب اللہ کا دشمن انہیں دیکھے گا تو وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے اگرچہ عیسیٰ اسے چھوڑ دیں گے تب بھی وہ پگھل جائے گا یہاں تک کہ ہلاک ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے عیسیٰ کے ہاتھوں سے قتل کرائیں گے پھر وہ لوگوں کو اس کا خون اپنے نیزے پر دکھائیں گے۔

(7): دجال کو عیسی علیہ السلام قتل کریں گے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ، رَجُلٌ مَرْبُوعٌ، إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ، بَيْنَ مُمَصَّرَتَيْنِ ، كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ، فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ، وَيُهْلِكُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، ثُمَّ يُتَوَفَّى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ “.
( سنن ابي داود : 4324 )
میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ‘ اور وہ اترنے والے ہیں ‘ جب تم انہیں دیکھو گے تو پہچان جاؤ گے کہ درمیانی قامت والے ہیں اور رنگ ان کا سرخ و سفید ہو گا ‘ ہلکے زرد رنگ کے لباس میں ہوں گے ‘ ایسے محسوس ہو گا جیسے ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہو ‘ حالانکہ نمی (پانی) لگا نہیں ہو گا۔(انتہائی نظیف اور چمکدار رنگ کے ہوں گے) وہ لوگوں سے اسلام کے لیے قتال کریں گے ‘ صلیب توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے ‘ جزیہ موقوف کر دیں گے۔اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں اسلام کے علاوہ دیگر سب دینوں کو ختم کر دے گا۔وہ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زمین میں چالیس سال رہیں گے ‘ پھر ان کی وفات ہو گی اور مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” يَقْتُلُ ابْنُ مَرْيَمَ الدَّجَّالَ بِبَابِ لُدٍّ “.
(سنن الترمذي : 2224)
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام دجال کو باب لد کے پاس قتل کریں گے“

(8): دجال بے اولاد و بانجھ ہوگا ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجْنَا حُجَّاجًا أَوْ عُمَّارًا وَمَعَنَا ابْنُ صَائِدٍ قَالَ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَبَقِيتُ أَنَا وَهُوَ فَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ وَحْشَةً شَدِيدَةً مِمَّا يُقَالُ عَلَيْهِ قَالَ وَجَائَ بِمَتَاعِهِ فَوَضَعَهُ مَعَ مَتَاعِي فَقُلْتُ إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ فَلَوْ وَضَعْتَهُ تَحْتَ تِلْکَ الشَّجَرَةِ قَالَ فَفَعَلَ قَالَ فَرُفِعَتْ لَنَا غَنَمٌ فَانْطَلَقَ فَجَائَ بِعُسٍّ فَقَالَ اشْرَبْ أَبَا سَعِيدٍ فَقُلْتُ إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ وَاللَّبَنُ حَارٌّ مَا بِي إِلَّا أَنِّي أَکْرَهُ أَنْ أَشْرَبَ عَنْ يَدِهِ أَوْ قَالَ آخُذَ عَنْ يَدِهِ فَقَالَ أَبَا سَعِيدٍ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا فَأُعَلِّقَهُ بِشَجَرَةٍ ثُمَّ أَخْتَنِقَ مِمَّا يَقُولُ لِي النَّاسُ يَا أَبَا سَعِيدٍ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا خَفِيَ عَلَيْکُمْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَسْتَ مِنْ أَعْلَمِ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ کَافِرٌ وَأَنَا مُسْلِمٌ أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ وَقَدْ تَرَکْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَکَّةَ وَقَدْ أَقْبَلْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَأَنَا أُرِيدُ مَکَّةَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ حَتَّی کِدْتُ أَنْ أَعْذِرَهُ ثُمَّ قَالَ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ مَوْلِدَهُ وَأَيْنَ هُوَ الْآنَ قَالَ قُلْتُ لَهُ تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْيَوْمِ
(صحیح مسلم : 2927)
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حج یا عمرہ کرنے کی غرض سے چلے اور ابن صائد ہمارے ساتھ تھا ہم ایک جگہ اترے تو لوگ منتشر ہوگئے میں اور وہ باقی رہ گئے اور مجھے اس سے سخت وحشت و خوف آیا جو اس کے بارے میں کہا جاتا تھا اور اس نے اپنا سامان لا کر میرے سامان کے ساتھ رکھ دیا تو میں نے کہا گرمی سخت ہے اگر تو اپنا سامان درخت کے نیچے رکھ دے ( تو بہتر ہے) پس اس نے ایسا ہی کیا پھر ہمیں کچھ بکریاں نظر پڑیں وہ گیا اور ایک (دودھ کا) بھرا ہوا پیالہ لے آیا اور کہنے لگا اے ابوسعید پیو میں نے کہا گرمی بہت سخت ہے اور دودھ بھی گرم ہے اور دودھ کے ناپسند کرنے کے سوائے اس کے ہاتھ سے بچنے کی اور کوئی بات نہ تھی یا کہا اس کے ہاتھ سے لینا ہی ناپسند تھا تو اس نے کہا اے ابوسعید میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی لے کر درخت کے ساتھ لٹکاؤں پھر اپنا گلا گھونٹ لوں اس وجہ سے جو میرے بارے میں لوگ باتیں کرتے ہیں اے ابوسعید جن سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث مخفی ہے (ان کی تو الگ بات ہے) اے انصار کی جماعت! تجھ پر تو پوشیدہ نہیں ہے کیا تو لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ کی حدیث کو جاننے والا نہیں حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دجال کافر ہوگا اور میں مسلمان ہوں کیا رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا وہ بانجھ ہوگا کہ اس کی کوئی اولاد نہ ہوگی حالانکہ میں اپنی اولاد مدینہ میں چھوڑ کر آیا ہوں کیا رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا تھا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہ ہوگا حالانکہ میں مدینہ سے آرہا ہوں اور مکہ کا ارادہ ہے حضرت ابوسعید خدری نے کہا قریب تھا کہ میں اس کے عذر قبول کرلیتا پھر اس نے کہا اللہ کی قسم میں اسے پہچانتا ہوں اور اس کی جائے پیدائش سے بھی واقف ہوں اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہے میں نے اس سے کہا تیرے لئے سارے دن کی ہلاکت و بربادی ہو۔

یہ چند دلائل سے معلومات ہوتا ہے کہ دجال اللہ تعالیٰ کے سامنے بے بس و لاچار ہوگا ۔

وَمَا تَوۡفِيۡقِىۡۤ اِلَّا بِاللّٰهِ‌ ؕ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ وَاِلَيۡهِ اُنِيۡبُ

 

تحریر : افضل ظہیر جمالی