سوال

میری  بہن شادی شدہ ہیں، چھ سال قبل ان کی شادی ہوئی تھی، پانچ بچے ہیں، دو سال قبل اس کا ذہنی توازن خراب ہونا شروع ہوگیا، اور اب وہ تقریبا ایک سال سے مکمل پاگل ہے، تقریبا ڈیڑھ ماہ قبل اس کے شوہر نے اس کو طلاق دے دی ہے، شوہر بالکل صحیح سلامت ہے، مینٹلی طور پر فٹ ہے، لیکن بیوی کا ذہنی توازن مکمل خراب ہے، کیا اس حالت میں طلاق واقع ہوجائے گی؟  اگر ہاں، تو رجوع کا کیا طریقہ کار ہوگا؟

( محمد ارسلان، رام پورہ، لاہور)

جواب

  • طلاق كی اہلیت شوہر کے پاس ہوتی ہے ، اگر  شوہر    كا  ذہنی توازن درست تھا تو  طلاق واقع  ہوچکی ہے، اس کے لیے بیوی کا بقائمی حوش وحواس ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر کوئی عورت خلع   (عورت کا مرد سے علیحدگی طلب کرنا)  لینا چاہے، تو  اس کا ذہنی توازن درست ہونا ضروری ہے۔
  • اسی طرح رجوع  کرنا بھی شوہر کا حق ہے ،جب وہ رجوع کرنا چاہے تو بيوی کے  ساتھ مصالحت کر کے      وہ رجوع کر سکتا ہے  ،  بشرطیکہ عدت ختم نہ ہوئی ہو۔ الله تعالی کا ارشاد ہے :

((وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ) اور آخر میں ہے:((وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)) (سورۃ البقرۃ:228)

”طلاق دی گئی عورتیں تین حیض انتظارکریں اور اس مدت کےدوران ان کے خاوندان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔“

لہذا دورانِ عدت انسان بیوی سے رجوع کرسکتا ہے ، حق مہر ونکاح وغیرہ کسی چیز کی ضرورت نہیں، البتہ یہ طلاق شمار ہوگی   ہے۔

لیکن اگر انسان   كو عدت گزر جانے کے بعد رجوع  کا خیال آیا، تو چونکہ عدت ختم ہونے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، لہذا  ایسی صورت میں  اس خاتون كو رشتہ ازدواجیت میں لانے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ

(سورۃ البقرۃ:232)

” جب تم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی،پھر وہ اپنی عدت پوری کر چکیں،تو انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔“

لہٰذا  معلوم ہوا کہ عدت ختم ہونے کے بعد بذریعہ نکاحِ جدید دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں۔

بشرطیکہ بیوی  نکاحِ جدید کےلیے راضی  ہو۔ كيونكہ جیسے  ولی کی اجازت  شرط ہے اسی طرح بیوی کی رضامندی بھی شرط ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں

«الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا»؟ قَالَ: نَعَمْ

(سنن ابی داؤد :۲۰۹۸)

”بیوہ اپنے ولی کی بہ نسبت ،اپنے بارے میں زیادہ حق دار ہے  اور کنواری سے بھی اس کے اپنے بارے میں مشورہ کیا جائے گا ،اس كی خاموشی ہی اس کی اجازت شمار ہوگی ۔“

اس کے علاوہ حق مہر بھی نیا ہوگا، کیونکہ پہلا حق مہر  نکاح کے ختم ہونے سے ختم ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ  نکاح  بند کمرے میں نہ  ہو، بلکہ گواہوں کی موجودگی   لازمی ہے۔

  • یہ بھی یاد رہے کہ دورانِ عدت رجوع ، یا عدت ختم ہونے کے بعد نکاح کا حق صرف پہلی اور دوسری طلاق میں ہی ہوتا ہے، تیسری طلاق کے بعد یہ دونوں حق ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک ہی صورت باقی

رہتی ہے کہ عورت کسی دوسرے  مرد سے آباد رہنےکی نیت سےنکاح کرے،خاوند  فوت ہو جائے یا وہ اس کو طلاق دے دے تو پھر اس عورت كا پہلے خاوند سے نکاح درست ہوگا، ورنہ نہیں۔

  • جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ دورانِ عدت مرد کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے، اس میں عورت سے صلح ہو تو بہتر، ورنہ رجوع کے لیے عورت کی رضامندی ضروری نہیں، لیکن اگر عدت ختم ہوجائے تو پھر نکاح کے لیے مرد کے ساتھ ساتھ عورت کی رضامندی بھی ضروری ہے، جیساکہ اوپر گزرا۔  اگر بیوی مجنونہ  اور عقل وشعور کھوچکی ہو تو پھر آثار وقرائن  سے اس کی رضامندی معلوم کرنے کی کوشش کی جائے،کیونکہ دیوانگی میں  انسان ایک حالت میں نہیں رہتااگر رضامندی یا عدم رضامندی  کا پتا چل جائے  تو بہتر ہے، اگر معلوم نہ ہو تو اس کی طرف سے باپ  يا  بھائی بطور ولی نیابتا  ًنکاح کر ے گا۔
  • آخر میں ہم یہ نصیحت کرنا چاہتےہیں اس خاوند کو جس نے بیوی  کو  پاگل پن کی وجہ سے طلاق دی ہے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے، اس سے رجوع کرے،  حسبِ استطاعت اس کا علاج کروائے، خیال رکھنے کی کوشش کرے،  مریض تو کوئی عام انسان ہو تو اس کے بھی حقوق ہوتے ہیں ، جبکہ یہ خاتون تو پھر اس کے پانچ بچوں کی ماں ہے۔ عصر حاضر میں اللہ کی نعمتیں اور وسائل عام ہیں، جدید ترین  طریقہ  ہائے علاج دریافت ہوچکے ہیں،   بہت سارے لوگ جن کو ہم پاگل اور مجنون سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں، اگر ان پر ذرا  توجہ دی جائے، تو وہ دوبارہ نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ کسی ماہر ڈاکٹر یا اچھے حکیم سےرابطہ کریں، نیک بزرگ سے دعا اور دم کروائیں، اور خود بھی  اللہ کے حضور قبولیت کے اوقات میں دعا کریں کہ اللہ تعالی  صحت وعافیت والی زندگی عطا فرمائے۔

یہ بات ہمیشہ یاد رہنی چاہیے کہ صحت وعافیت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور اللہ کسی بھی وقت کسی کو یہ نعمت دے بھی سکتا ہے، اور  چھین بھی سکتا ہے۔ صحت وعافیت کی نعمت کی قدر کرتے ہوئے، ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، لیکن جو اس نعمت سے محروم ہیں، ان مریضوں کی حسب استطاعت خدمت کی جائے، نہ کہ انہیں

نفرت وبیزاری کا نشانہ بناکر در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  ابو الحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ   (نائب رئیس)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ