سوال

ایک عورت جو کسی حد تک دیندار ہے، اپنے گھر میں فہمِ قرآن کلاس اور دروس وغیرہ کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ اس کے شوہر کے غیر محرم عورتوں سے بہت غلط تعلقات ہیں ۔ کیا اس عورت کا اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ درست ہے؟ یا کوئی بیچ کا راستہ ممکن ہو تو رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده !

یہ بے حیائی تو ایک فیشن کی شکل اختیار کرچکی ہے. اللہ تعالی سب کو ہدایت دے۔  اس حوالے سے رہنمائی درج ذیل نکات میں ملاحظہ فرمائیں:

  • درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ ایک بہترین کام ہے، لیکن بعض مرد وخواتین اس نفلی کام میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ کئی ایک بنیادی فرائض ہی اس سے متاثر ہونا شروع ہوجاتے ہیں، کئی ایک گھریلو مسائل جنم لیتے ہیں، جن کا  واحد حل یہی ہے کہ اعتدال و میانہ روی کا دامن نہ چھوڑا جائے۔  لہذا سب سے پہلے تو  یہ خاتون توجہ کریں کہ کہیں ان کی لاپرواہی کی وجہ سے خاوند ان غلط کاموں میں تو نہیں پڑ گیا۔ اگر ایسا معاملہ ہے تو پھر گھر کے کام کاج اور دیگر مصروفیات سے وقت نکال کر اسے ٹھیک ٹھاک وقت دیں حتی کہ وہ صحیح ہوجائے۔
  • لیکن اگر بلا وجہ حرام تعلقات کی عادت ہے، تو اسے سمجھانے کی کوشش کی جائے، عورت خود سمجھائے، نہ سمجھے تو اس کی والدہ یعنی خاتون اپنی ساس وغیرہ سے مدد لے،البتہ کسی ایسے فرد کو اس معاملے کی خبر نہ ہو، جس کے سامنے راز کھلتا دیکھ کر خاوند مزید سیخ پا ہوجائے۔
  • اگر اس کو سمجھا کر اصلاح ناممکن ہے، تو پھر عورت اپنے گھر والوں سے مشورہ کرے،اگر وہ اس کا بوجھ برداشت کرسکتے ہیں، تو خاوند کو کہہ دے کہ وہ اس حالت میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی، اور چھوڑ کر گھر آجائے،ہوسکے تو طلاق لینے کی دھمکیاں بھی دے،جس قدر ہوسکے اسے طلاق کے عواقب و نتائج سے ڈرائے، کئی حرام خور اس مرحلے میں آکر سمجھ جاتے ہیں، کیونکہ طلاق کی صورت میں صرف عورت ہی نہیں مرد کو بھی کئی ایک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ پھر بھی نہ سمجھے تو عورت کو اپنے والدین کے مشورے سے اس بدکردار شخص سے طلاق ( نہ دے تو خلع) لے لینا چاہیے۔  اور جس قدر ممکن ہو مناسب رشتہ دیکھ کر عقدِ ثانی کرلیا جائے، تاکہ عورت کی عزت وآبرو پر حرف گیری نہ ہو۔
  • یہاں یہ بات کرنا کہ نہیں جی طلاق یا خلع لینا بہت بری بات ہے، درست نہ ہوگا، کیونکہ طلاق و خلع کا آپشن شریعت میں ہے تو اسے اس قسم کی آزمائشوں سے نکلنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

یہ بات بھی غلط ہے کہ عورت علیحدگی کی طاقت رکھنے کے باوجود صبر کرے، کیونکہ اس قسم کی صورت حال میں صبر کا کہہ دینا آسان ہے، لیکن عملا ایسی گندگی پر صبر مزید کئی مشکلات و مصیبتوں کو جنم دیتا ہے، جو ساری ساری رات دوسروں کی بیویوں بیٹیوں سے محوِ گفتگو رہتا ہے، تو اس کے گھر میں رہنے والی عورت کب تک مکافات ِعمل سے بچی رہے گی؟ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ گند میں رہتے ہوئے اس کے چھینٹوں سے متاثر نہیں ہوگی؟

لہذا جہاں ہم اپنی بہنوں بیٹیوں کو عمومی گھریلو مشکلات پر صبر کرنا سکھاتے ہیں، وہیں اس قسم کے حالات میں انہیں مصیبت سے نکالنے میں بھرپور مدد بھی کرنی چاہیے۔

مردوں عورتوں کی آپس میں چیٹنگ، اور آنکھ مٹکا، یہ ایک وبا بن چکی ہے، اس قسم کے کیسز میں حتی الامکان ایک فیصد بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے، اگر عورت خراب ہو تو مرد کی جان چھڑوائیں، اور اگر مرد خراب ہوگیا ہے، تو عورت کو اس مصیبت سے نکلنے میں بھرپور مدد کریں۔

  • عورت کے والدین اس کا بوجھ برداشت نہ کرسکتے ہوں، خاوند کی اصلاح بھی ممکن نہ ہو، تو ایسی خاتون کو پھر صبر کرنا چاہیے،کیونکہ ایک بدکار شوہر سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو ایک بے راہ رو معاشرے کے سپرد کرنا، اس عورت کے لیے مزید نقصان کا باعث ہوسکتا ہے،جہاں قدم قدم پر شرم وحیا سے عاری لوگ بے آسرا خواتین کو تنگ کرنے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الدکتور حافظ إسحاق زاہد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدكتور عبد الرحمن يوسف مدنى  حفظہ اللہ