مسجد اقصی اور بیت المقدس کی تاریخ پر دو عربی کتابیں!

بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ اہل اسلام کے ہاں حرمین شریفین کے بعد تیسرا مقدس مقام ہے اور ان جگہوں میں سے ہے جس کی طرف زیارت کی نیت سے سفر کرنا درست ہے، اس مبارک شہر اور مسجد کے حوالے سے یوں تو کئی کتب لکھی گئی ہیں لیکن دو کتب بہت عمدہ اور تفصیلی ہیں اور تقریبا ایک ہی زمانے میں لکھی گئی ہیں:
1. “الروض المغرّس في فضائل البيت المقدّس” للعلامة القاضي تاج الدين عبدالوهاب بن عمر الحسيني الشافعي، المتوفى عام٨٧٥هـ رحمه الله.

یہ کتاب بیت المقدس کے فضائل وآداب کے حوالے سے جامع ترین بھی ہے اور اوسع بھی ہے کتاب کے مؤلف امام تاج الدین شافعی رحمہ اللہ نے اس کتاب کے لکھنے کا مقصد خود لکھا ہے کہتے ہیں” میں نے جب871ھ میں مسجد اقصیٰ کی زیارت کی اور وہاں تقریباً چار ماہ مقیم رہا اور یہاں کے مبارک اور مشرف کے محلے اور مقامات دیکھے تو اس شوق نے انگڑائی لی کہ کوئی مجھے اس مبارک جگہ کے فضائل سے آگاہ کرے جس سے اس کی طرف زیارت کا ارادہ کرنے والے کا شوق مہمیز ہو، میں نے بہت سے علماء اور فضلاء سے اس متعلق دریافت کیا کہ مجھے اس کے احکام سے آگاہی ملے، آیا یہاں صرف نماز پڑھنا افضل ہے یا پھر اور عبادات کے اجر میں بھی اصافہ ہوتا ہے اور کیا یہ اجر کی فضیلت صرف خاص مسجد سے متعلق ہے یا پھر پورے شہر القدس سے متعلق ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے بارکنا حولہ، پھر مجھے کوئی شافی و کافی جواب نہیں ملا تو میں نے استخارہ کیا اور اللہ تعالیٰ جو عزیز اور وہاب ہے اس سے توفیق مانگی اور اپنی ہمت کے مطابق یہ سب احادیث اور آثار جمع کر دئیے ہیں۔” (مقدمۃ الکتاب)

یہ کتاب ٹوٹل 37 ابواب پہ مشتمل ہے جس میں اس جگہ کے نام، کب یہاں یہ مسجد بنی اور کس کس نے است تعمیر کیا، نبی داؤد اور نبی سلیمان علیہما السلام نے کیا اس کی نئی بنیاد رکھی، بیت المقدس کی فضیلت، اس کی طرف سفر کرنے کا حکم، اس کی زیارت کے آداب، اس میں نماز کی فضیلت، یہاں عام نیکیوں اور برائیوں پہ جزا وسزا کا حکم، یہاں صدقہ، روزہ، اور اذان کا الگ سے اجر، قبۃ الصخرۃ کی فضیلت اور حقیقت اور اس سے نکلنے والے پانی کی اصل اور یہاں زیارت کی نیت سے آنا مشروع ہے، اس کے داہنے جانب نماز اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا اور کالے پتھر والے حصے کی کیا فضیلت ہے، آیا اس قبے پہ فرشتے کا نزول ہوتا رہتا ہے، معراج والے قبے کی حقیقت اور وہاں دعا مانگنا، قبہ سلسلہ، باب حطہ، باب توبہ، مسجد کا احاطہ کیا ہے، سیدنا عمر کا محراب اور باقی محرابوں کی حقیقت، نبی کریم ﷺ سے منسوب دروازہ، سلوان کا چشمہ، یہاں یہود ونصاریٰ کی عبادت گاہوں کا حکم، اس کے اردگرد برکت ہونے سے کیا مراد ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اس کی فتح، عبدالملک بن مروان کے دور کی تعمیر اور قبۃ الصخرۃ کی تعمیر، یہاں جن انبیاء علیہم السلام کی آمد ہوئی وہ صحابہ کرام جو یہاں آئے، خاص مسجد اقصیٰ کے فضائل، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قبر کی زیارت کا حکم، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قبر کی حقیقت اور اس کی طرف زیارت کا حکم، شام کے عمومی فضائل کا بیان یہ سب اس کتاب میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
جیسا کہ ظاہر ہے یہ مصنف کی زندگی کے آخری اعمال میں سے ہے 871 ھ میں ان کی القدس آمد ہوئی اور 875 ھ میں وہ وفات پا گئے۔
مصنف نے ہر باب میں باکثرت احادیث اور آثار بیان کئے ہیں ساتھ تاریخی واقعات کا ذکر کیا ہے، لغوی فوائد بھی ذکر کئے ہیں اور اس کے علاؤہ بھی یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے اور بہت سی نادر اور اب مفقود حوالہ جات کا بھی ذکر ہے۔
اس کتاب کے بہت سے طبعات ہیں جو کتاب کی تصویر میں نے لگائی یہ دو جلدوں میں ہیں۔

2. “الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل” للقاضي مجير الدين الحنبلي القدسي المتوفى العام 927ه‍.
اس کتاب کے مصنف کا تعلق ہی فلسطین سے ہے، ان کی پیدائش رملہ میں ہوئی اور بچپن میں ہی یہ القدس منتقل ہو گئے، ان کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا ان کے والد اور دادا بھی علماء تھے اور ان کے والد اپنے وقت کے قاضی تھے اور مجیر الدین بھی اپنی قابلیت کے بل بوتے پر قاضی القضاۃ مقرر ہوئے، ان کا شجرہ نسب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جا کے ملتا ہے، اس کتاب کا لکھنے کا مقصد بھی مصنف کے مطابق لوگوں کو اس منطقہ کی تاریخ اور معلومات سے آگاہ کرنا ہے، پہلی کتاب کے مقابلے میں اس کتاب کا منہج تاریخی اور معلوماتی ہے، مصنف نے اس کا آغاز عام تاریخی کتب کی طرح تخلیق کائنات سے کیا ہے، پھر سیدنا آدم علیہ السلام کا ذکر ہے اور آیا آدم علیہ السلام قدس شریف آئے اور یہاں پہلی تعمیر فرشتوں نے کی، ابراہیم علیہ السلام نے کی یا ابراہیم علیہ السلام نے یا پھر یعقوب علیہ السلام نے کی تھی، پھر سلیمان علیہ السلام نے یہاں جنوں کے ہاتھوں کیا تعمیر کیا اور اضافہ کیا، زکریا علیہ السلام کا محراب کہاں ہے، عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش، اسی طرح بہت سے انبیاء علیہم السلام کی قبور کا ذکر ہے، تاریخی لحاظ سے یہاں کون سی اقوام آباد رہی ہیں اور کون کون یہاں بادشاہ رہے، نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل یہاں کیا حالات تھے اور سیدنا عمر کے ہاتھوں اس کی فتح کا انتہائی تفصیل سے ذکر ہے، کون سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہاں تشریف لائے اور کون سے یہاں آباد ہوئے اور یہاں وفات پائی، سیدنا عمر کے دور میں آنے والے طاعون میں کون سے اصحاب یہاں فوت ہوئے اور ان کی قبریں کہاں ہیں، بیت المقدس کی تعمیر میں کس کس خلیفہ نے حصہ لیا، اسی طرح صلیبی جنگوں کا بھی تفصیلی ذکر موجود ہے، زنگی، ایوبی اور ممالیک کے عظیم الشان جہاد کا بھی تفصیلی ذکر ہے اور یہ کتاب بھی دو جلدوں میں ہے اور مطبوع ہے۔

تحریر: عبد الوهاب سليم