منکرین قربانی!

 قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی سنت اور سنت المرسلین قرار دیا ہے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس سنت پر ہمیشہ عمل کیا ہے آپ کے صحابہ نے اس سنت کو زندہ رکھا یہاں تک کہ یہ مبارک عمل ہم تک پہنچا ۔
لیکن بعض منکرین حدیث ، ملحدین ، لبرل قسم کے لوگ اس اسلامی شعار قربانی کو مٹانے کے لیے کئی قسم کے اعتراضات کرتے ہیں ۔
(1): سب سے پہلے اعتراض کرنے والے منکرین حدیث ہیں۔
اعتراض : قربانی کا حکم صرف سورة الحج میں ہے ۔ تو لہذا قربانی کا حکم صرف حاجیوں کے لیے ہے ؟
جواب : ان کا یہ اعتراض جھالت پر مبنی ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قربانی کا حکم صرف سورة الحج میں نہیں دیا ۔
بلکہ اللہ تعالیٰ سورة الکوثر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں ۔
فصل لربك وانحر (الكوثر : 2)
اپنے رب کے لیے نماز قائم کریں اور نحر کریں ۔
ان کی تردید کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کافی ہے ۔
سیدنا براء بن عازب فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يذبحن أحدكم حتى يصلى
تم میں سے کوئی بھی عید نماز سے پہلے قربانی نہ کرے ۔
( جامع الترمذی 1508)
پہلی بات احدکم میں عموم ہے اس میں حاجی اور غیر حاجی دونوں شامل ہیں ۔حدیث میں حاجیوں کی تخصیص نہیں ہے ۔
دوسری بات عید نماز صرف حاجی نہیں پڑھتے بلکہ تمام مسلمان پڑھتے ہیں ۔تو قربانی کا حکم تمام مسلمانوں کے لیے ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 10 سالہ مدنی زندگی میں قربانیاں کی ہیں ۔
قرآن و حدیث میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس میں قربانی کو حاجیوں کے لیے خاص کیا گیا ہو ۔

( 2):دوسرا اعتراض
کبھی لبرل اور جاہل قسم کے لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جتنی رقم قربانی پر خرچ کی جاتی ہے ۔اتنی رقم سے محتاج لوگوں کے لیے رہائشی منصوبے بنائے جاتے تو بھتر ہے ۔کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ جتنی رقم قربانی پر خرچ کی جاتی ہے اتنی رقم صدقہ و خیرات میں خرچ کی جائے تو بھتر ہے ۔کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ تین لاکھ کا جانور لایا جاتا ہے اس سے بھتر ہے کہ کسی یتیم بچی کا نکاح کرلیا جائے ۔

جواب: 1: نیکیوں کا تقابل کیوں کرتے ہو ۔یہ بدگمانی کیوں کرتے ہو جو شخص قربانی کرتا ہے وہ صدقہ نہیں کرتا ہوگا ۔ جو شخص قربانی کرتا ہے وہ بالاولی صدقہ کرتا ہوگا ۔

(2)اعتراض کرنے والے لوگ اگر وہ قربانی سے کئی گنا زیادہ رقم اپنی عیاشیوں پر خرچ کردیں تو وہ ان کے نزدیک مالی ضیاع نہیں ۔لیکن قربانی میں انہیں کئی طرح کے نقصانات نظر آنے لگتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو 100 اونٹ ذبح کیے ۔کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مالی ضیاع کیا تھا ۔
عن عَلِيًّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَهْدَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةَ بَدَنَةٍ فَأَمَرَنِي بِلُحُومِهَا فَقَسَمْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَمَرَنِي بِجِلَالِهَا فَقَسَمْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ بِجُلُودِهَا فَقَسَمْتُهَا.
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے (حجۃ الوداع کے موقع پر) سو اونٹ قربان کئے، میں نے آپ ﷺ کے حکم کے مطابق ان کے گوشت بانٹ دئیے، پھر آپ ﷺ نے ان کے جھول بھی تقسیم کرنے کا حکم دیا اور میں نے انہیں بھی تقسیم کیا، پھر چمڑے کے لیے حکم دیا اور میں نے انہیں بھی بانٹ دیا۔
(صحیح البخاری 1718)
(3): تیسرا اعتراض :
یہ بھی اعتراض کیا جاتا کہ قربانی حیوانات کی نسل کشی ہے ؟
جواب : 1400 سال سے یہ قربانی ہوتی رہتی ہے ۔کیا جانوروں کی تعداد میں کمی نظر آتی ہے ۔بلکہ یہ فطری چیز ہے کہ جو چیز اللہ کی راہ میں خرچ کی جائے وہ چیز بڑھتی ہے ۔

(4): یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مقروض بندہ قرض ادا کرے قربانی نہ کرے ؟
جواب : لیکن شریعت اسلامیہ میں تلاش بیسار کے باوجود مجھے ایسی کوئی روایت نہیں ملی جس میں یہ ثابت ہوتا ہو کہ مقروض شخص قربانی نہ کرے ۔
*قربانی پر اعتراض کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کی قربانی کے اس عمل سے لاکھوں خاندانوں کا رزق وابسطہ ہے ۔
(1): لوگ دیہات میں ان جانوروں کو پالتے ہیں پھر انہیں قربانی کے موقع پر فروخت کے لیے شہروں میں لاتے ہیں ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کی روزی کا بندوبست کرتا ہے ۔

(2):ان جانوروں کو ٹرکوں کے ذریعے لایا جاتا ہے ۔ اس سے ٹرک والوں کو آمدنی ہوتی ہے ان کا سلسلہ معاش چلتا ہے ۔

(3): شہری لوگ ان جانوروں کو خریدتے ہیں دس دس ، بیس بیس دن انہیں چارہ کھلاتے ہیں ۔چارے والے سیکڑوں افراد کا اس سے رزق وابسطہ ہے ۔

(4):قصاب انہیں ذبح کرکے روزی کرتے ہیں ۔

(5):غریب اور مسکینوں میں گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔

(6):قربانی کی کھالیں کس قدر بابرکت ہیں ۔جو غرباء و مساکین کے لیے وقف کی جاتی ہیں ۔غرباء و مساکین انہیں فروخت کرکے ضروریات زندگی خریدتے ہیں ۔

(7):ان کھالوں سے فیکٹری میں مختلف چیزیں بنتی ہیں ۔
قربانی کے اور بھی کتنے فوائد ہیں ۔ لیکن انہیں پر اکتفاء کرتا ہوں ۔
قربانی پر اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ قربانی کہ تمام پہلوں پر غور و فکر کریں ۔ اس کے بعد اعتراض کریں ۔محض اعتراض برائے اعتراض کا کچھہ فائدہ نہیں ہوگا ۔

تحریر:افضل ظہیر جمالی