جیسے ہی مشکل ہو کر حوالات کے دروازے والی جانب بیٹھتا ہوں تو میرے قلوب واذہان میں اسلاف کی زندگیوں کے وہ تلخ حقائق سامنے سکرین کی طرح چلنے لگتے ہیں جہاں امام اہل سنت اور وقت کے محدث امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پابند سلاسل نظر آتے ہیں اسی طرح اسلامی تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو علماء و محدثین کی لمبی فہرست ہے جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اس جیسی صعوبتیں برداشت کی تھیں لیکن دین پر قائم رہے اور استقامت کا پہاڑ ثابت ہوئے
میں نعوذ باللہ قطعا خود کو ان کے ساتھ کمپئیر نہیں کر رہا بس بتانا یہ مقصود ہے کہ میرے اور اسلاف کی صعوبتوں میں قدر مشترک یہی تھا کہ ان کو بھی ناحق جیلوں میں قید کیا گیا اور اج مجھے بھی بنا کسی جرم کے پابند سلاسل کر دیا گیا تھا..
میرے ذہن میں یہ ساری ہسٹری چل رہی تھی ساتھ میں اس حوالات میں بند نوجوانوں کی حالت زار بھی پرکھ رہا تھا کہ ان کے بھی والدین ہوں گے یہ بھی کسی کے لخت جگر ہوں گے ان کے بھی بہن بھائی ہوں گے ان کے بھی جذبات ہوں گے لیکن یہاں حالت دیکھ کر دل انتہائی رنجیدہ سا ہو رہا تھا کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے…. ابھی سب یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک نوجوان مجھے مخاطب ہوا کہ حافظ صاحب کیوں پریشان ہیں؟ اور اپکو کس کیس میں پکڑ کر لائے ہیں؟
جو نوجوان مجھے مخاطب تھا اسے پاؤں میں بھی بیڑیاں بندھی ہوئی تھیں جب میری ان پر نظر پڑھی تو فوری یہ بات ذہن میں ائی کہ یہ سب اسی کے ساتھ کرتے ہیں جو بہت بڑا اور خطرناک مجرم ہو اور عادی مجرم بھی ہو.. لیکن جب اسے حلیہ کی طرف نظر پڑے تو وہ ایک خوبصورت نوجوان تھا جس کی عمر تقریباً تیس سال کے قریب ہو گی
خیر میں نے جوابا یہ کہا کہ پریشانی تو فطری امر ہے اور کیس کس میں لائے ہیں وہ کوئی کیس نہیں ہے.
کہنے لگا جی ٹھیک.. وہ اتنا کہہ کر کونے میں بیٹھ جاتا ہے اب مجھے تجسس یہ تھا کہ اس کا جرم کیا ہے تو پاس بیٹھے ایک بندے سے میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا کہ اس بیڑیوں والے کو کس جرم میں پکڑ کر لائے ہیں تو کہنے کوئی چار سال قبل لاہور میں اس نے ایک جج کے گھر کو لوٹا تھا وہ چوری ڈیڑھ کروڑ کے قریب تھی اور وقتی طور پر یہ باہر بھاگ گیا تھا اور غالبا ایک ماہ قبل اسے گرفتار کیا گیا ہے

میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ یہاں لوگوں کے انصاف دینے والے محفوظ نہیں ہیں تو انصاف لینے والوں کی حالت کیا ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں یے..
پھر میں نے کہا کہ جناب اپ کس کیس میں یہاں آئے ہیں تو کہنے لگا کہ بکریوں کے جرم میں ملوث تھا.. یعنی بکریاں چوری تھیں جیسے ہی اس نے یہ بتایا تو مجھے ملک کے ایک سیاستدان کی وہ کہی بات یاد آئی کہ اس ملک میں مرغی، بکری اور بلی چور تو جیلوں میں ہیں لیکن جو ملک ہی لوٹ جائیں اور ملکی معیشت کو وینٹی لیٹر کر جائیں وہ برسرِ اقتدار ہو جاتے ہیں شاید یہی ہے ملک کا مبارک آئین وقانون..
ایک میرے سامنے بیٹھا تھا اس سے سوال کیا کہ اپ کس جرم میں ملوث تھے تو کہنے لگا کہ مجھ سے چرس پکڑی گئی ہے مجھے فورا وہ واقعہ یاد آگیا کہ جہاں ملک پاکستان کی سب سے بڑی عدالت عظمیٰ کا چیف جسٹس اپنے ہاتھوں سے شراب پکڑے تو اسے بعد میں اہل اقتدار میں بیٹھے دانشور شہد ثابت کر کے سزا سے بچا لیتے ہیں کاش ان کے لیے بھی وہی کوئی ردوبدل ہو لیکن اس ملک میں غریب کے لیے قانون اور ہے اور امیر کا تو اپنا ہی قانونی مسودہ ہے جسے جب دل کرے مرضی کے مطابق ترامیم لیں..
ایک صاحب میرے سامنے کچھ دور لیٹے ہوئے تھے جو ظاہرا پڑھے لکھے معلوم ہو رہے تھے لیکن وہ محو نیند تھے میں نے کہا بھائی یہ کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں تو بتایا گیا کہ یہ ڈاکٹر ہیں اور اچھی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن انہوں نے کسی کے لین دین میں اپنے چیک گارنٹی کے طور پر دیے ہوئے تھے اور ان چیکس کی مالیت تقریباً چالیس لاکھ کے قریب ہے اور اصل بندہ فرار ہو چکا ہے اور انہوں نے ضمانت دینے والے یعنی ان ڈاکٹر صاحب کو پکڑ رکھا ہے کہ اس بندے کو پکڑوا دو یا اتنی رقم واپس کر دو…. میں اس سوچ میں مبتلا ہو گیاکہ دنیا میں شاید کسی کے ساتھ بھلائی یا نیکی کرنے کا دور بالکل ہی ختم ہو چکا ہے اور دیکھیں اس بچارے کا کیا قصور جس نے بھلائی بھی لیکن اب پابند سلاسل ہے اور نوکری الگ سے ختم ہوئی اور جس اذیت سے وہ گزر رہا ہم بس اندازہ ہی لگا سکتے ہیں حقیقت وہی جانتا ہے
اسی طرح دو بھائی ایک ساتھ پکڑے ہوئے تھے جو کم عمر ہی تھے منصورہ بازار کے رہائشی تھے میں نے کہا یہ عمر لکھائی پڑھائی کی ہوتی ہے آپ کن چکروں میں لائے گیے ہیں تو ان میں سے بڑا کہنے لگا کہ میں پراپرٹی کی دکان پر کام کرتا ہوں اور کچھ ماہ قبل منصورہ بازار ٹوکے والے چوک میں دو قتل ہوئے تھے. جو باپ بیٹا تھے ان کا قتل کرنے والا کبھی کبھار ہماری دکان پر آکر بیٹھ جایا کرتا تھا اور جس دن وہ قتل ہوا وہ ہمارے سامنے ہوا تھا اور میں موقع پر موجود تھا اور میں نے موقع پر اس ہونے والے قتل کی وڈیو بنائی تھی اور وہ وڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہو گئی تھی.. تو میں نے کہا اس میں اپکا جرم کیا ہے تو کہنے لگا کہ اس جرم میں پکڑا ہےکہ وہ کبھی کبھار ادھر آکر بیٹھ جاتا تھا لہذا اپکا اس سے کوئی رابطہ ہو گا اسے پکڑوا دو تو میں نے اپکے بھائی کو کیوں تو کہنے لگا کہ اس کا جرم یہ ہے کہ وہ میرا بھائی ہے…
میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ یہاں دن دہاڑے امیر زادے پولیس والے کو گاڑی کے نیچے دے دیتے ہیں اور وڈیو بھی موجود ہے لیکن عدالت عدم ثبوت کا کہہ کر مجرم بری کر دیتی ہے کیونکہ وہ جج صاحبان کی جیبیں بھرنے والے ہوتے ہیں لیکن یہاں جن کا قتل سے بظاہر کوئی تعلق نہیں ان کو جیل میں قید رکھا ہوا ہے….
ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا میرے ساتھ جو ائے تھے تنویر بھائی ان کو حوالات میں چھوڑ گیے مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ وہ واپس آگیے ہیں کوئی تشدد وغیرہ نہ کیا ہو وغیرہ وغیرہ
لیکن میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میں خیریت سے ہوں بس سر درد بہت ہو رہا اور پیاس بہت لگی ہے.. اب یہاں تو پینے کو پانی تھا تو وہ بھی گرم اس سے پیاس کم ہونے کی بجائے بڑھنی ہی تھی… میں نے کہا دعا کرتا ہوں اللہ پانی پلا دے گا کوئی سبب لگ جائے گا ان شاء اللہ
اتنے میں ڈی ایس پی کا افس بوائے آتا ہے کہ تنویر صاحب کے لیے کھانا بھیجا ہے کھا لیں اور ساتھ پانی بھی تھا
میں نے کہا تنویر بھائی ہاتھ دھوئیں اور پیٹ بھر کے کھانا کھائیں ساتھ پانی پئیں.. میں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے افس بوائے سے کہا کہ پیناڈول وغیرہ لا دو ان کا سر بہت درد کر رہا ہے اس نے درخواست سنی اور میڈیسن لا دی.. میں نے تنویر بھائی کو کہا کہ کھانے کے بعد میڈیسن لیں تو میں اپ کے لینٹے کی جگہ بنواتا ہوں تاکہ اپ کچھ دیر سو سکیں اور طبیعت بہتر ہو جائے گی..
انہوں نے کھانا اور دوائی وغیرہ کھائی تو بہت مشکل سے ان کے لیٹنے کی جگہ بنوائی اور ان کہا تھوڑی دیر آرام کر لیں اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ فجر تک سوئے رہے کیونکہ ان کو تھکاوٹ بہت تھی بلکہ ذہنی آزمائش زیادہ تھی…
اسطرح سب کسی نہ کسی طریقے سے لیٹنے کی کوشش کر ریے تھے تاکہ کچھ دیر سو سکیں.. جیسے ہی سب سوتے ہیں میں نے آہستہ سے تلاوت شروع کر دی تاکہ وقت بھی گزر جائے اور اللہ سے تعلق بھی وابستہ رہے لیکن میں پیچھے گھر والوں کی وجہ سے مسلسل پریشان تھا کہ جب ان کو پتا ہی نہیں چلے گا میں ہوں کہاں وہ پہلے کی طرح بہت پریشان ہوں گے لیکن میں کچھ کر نہیں سکتا تھا اور کسی طرح پیچھے رابطہ ہو سکتا تھا.. میں نے ان کا معاملہ اللہ کی سپرد کر دیا کہ اللہ ان کو تو ہی صبر دینا تاکہ یہ دو دن گزر سکیں پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے.. تلاوت جاری تھی کہ نصف رات کا غالبا وقت ہو چکا تھا اب میرے دل میں قیام الیل کی ٹرپ تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہاں بیٹھنا مشکل ہوا تھا قیام تو بہت دور کی بات تھی تو میں نے سوچا قیام کی جگہ تلاوت ہی جاری رکھتا ہوں لیکن میں نے مجبوری سمجھ کر بیٹھ کے کچھ نوافل پڑھنے کا ارادہ کر لیا اب میں نے کچھ نوافل کے قیام کو لمبا کیا تاکہ فجر تک وقت گزر سکے.. جیسے ہی وتر پڑھ کے فری ہوا تو کانوں میں اذان فجر کی آواز سنائی دی تو دل میں خیال تھا کہ اللہ تو واقع سب سے بڑا یے اور علی کل شیء قدیر بھی ہے
میں نے اسی وضوء سے نماز فجر ادا کی اور بعد میں تنویر بھائی کو بیدار کیا اور کہا فجر ادا کر لیں… انہوں نے فجر ادا کی تو کہنے لگے تو لیٹا نہیں تو میں نے دوست سے باتیں کرتا رہا وقت کا پتا نہیں چلا اور لیٹنے کی فرصت نہیں ملی تو کہنے لگے چلو اب تھوڑا میرے کہنے پر لیٹ جاؤ تو میں نے کہا ابھی اذکار کرنے ہیں اور اشراق کی نماز بھی پڑھنی ہے تو کہنے لگے اذکار لیٹ کر کر لو جب وقت ہو یہاں بیٹھ کر نماز پڑھ لینا لیکن فی الحال لیٹ جاؤ میں نے ان کا حکم بجا لاتے ہوئے لیٹ کر اذکار کیے اور اشراق کا وقت ہونے پر نماز ادا کی الحمدللہ..
اب جمعرات کا دن شروع ہو چکا تھا الحمدللہ۔ جاری ہے۔

کامران الہی ظہیر