سلف و خلف میں جمہور علما کا یہ موقف رہا ہے کہ محرم میں دس تاریخ کا روزہ رکھنا افضل ہے، ساتھ 9 تاریخ کا ملانا اس سے بھی افضل ہے، لیکن ہر سال ہی بعض احباب کی طرف سے یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ عاشورہ کا روزہ صرف 9 کا ہے، جبکہ دس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے نزدیک بات اس کے برعکس ہے کہ اصل روزہ دس کا ہے، جبکہ صرف 9 والا موقف گو بعض اہلِ علم کا رہا، لیکن دلائل کی رو سے یہ کمزور ترین موقف ہے۔ اس مختصر تحریر میں 9 اور 10 کو ملا کر رکھنے کی مشروعیت کو ثابت اور صرف 9 والوں کے دلائل کو سمجھ کر تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

نو اور دس محرم کے روزے کی مشروعیت میں وارد بعض احادیث​

پہلی حدیث:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَرَأَى اليَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: «مَا هَذَا؟»، قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهُ مُوسَى، قَالَ: «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ»، فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ. (صحيح البخاري (3/ 44)( 2004)
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا، یہودی عاشوراء (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں، ان سے پوچھا تو بتایا: ہمارے لیے یہ ایک مقدس دن ہے، اس میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی تھی، تو موسی علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم تو تم سے زیادہ موسی علیہ السلام پر حق رکھتے ہیں، لہذا آپ نے خود بھی روزہ رکھا، اور اس روزے کا حکم بھی دیا۔
یہی حدیث الفاظ کے ذرا اختلاف سے صحيح مسلم (2/ 796) (1130) میں بھی ہے۔
بخاری ومسلم اس حدیث کو کئی ایک مرتبہ صحیحین میں لائے ہیں، بعض میں صراحت ہے کہ اس دن موسی علیہ السلام کو فرعون پر فتح حاصل ہوئی تھی، تو آپ نے شکرانے کے طور پر یہ روزہ رکھا تھا۔ بعض احادیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال یہودیوں کی بجائے صحابہ کرام سے کیا، تو آپ نے فرمایا تم ان سے زیاد حقدار ہو، لہذا روزہ رکھو۔ دونوں قسم کی احادیث میں کوئی اختلاف نہیں، ممکن ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے بھی پوچھا ہو، اور صحابہ کرام سے بھی برسبیلِ افہام وتفہیم سوال کیا ہو، یا پھر پہلے صحابہ کرام سے پوچھا ہو اور پھر بذات خود یہودیوں سے بھی یہ معلوم کرلیا ہو۔ یہ قوی احتمال بھی بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کا روزہ پہلے بھی رکھتے تھے، لیکن یہودیوں کو اس طرح پوچھ کر ان کی تالیفِ قلبی مقصود تھی۔

دوسری حدیث:

عَنِ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ، فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: «إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، وَأَصْبِحْ يَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا»، قُلْتُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ قَالَ: «نَعَمْ» (صحيح مسلم (2/ 797) (1133)
حکم بن اعرج بیان کرتے ہیں، میں ابن عباس کے پاس حاضر ہوا، آپ زمزم کے پاس چادر لپیٹ کر تشریف فرما تھے، میں نے پوچھا: مجھے عاشوراء کے متعلق رہنمائی کریں، فرمایا: جب محرم کا چاند طلوع ہو، تو دنوں کی گنتی شروع کردو، اور نویں دن روزے سے ہو جاؤ، میں نے پوچھا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے ہی رکھا کرتے تھے؟، فرمایا: جی ہاں۔
بعض لوگ اس حدیث کو ’صرف نو‘ کی دلیل سمجھتے ہیں، حالانکہ اس کے الفاظ پر ذرا غور کریں تو ان میں اس کے لیے کوئی دلیل نہیں، پہلی بات یہ ہے کہ اس میں حصرپر دلالت کرنے والے الفاظ ہی موجود نہیں۔ ہاں یہی روایت بعض کتبِ حدیث میں اختصار کے ساتھ مروی ہے، جس سے شاید بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہو۔ واللہ اعلم۔
دوسری بات یہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور بھی ایسے ہی روزہ رکھتے تھے، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ’صرف 9‘ کا روزہ کبھی رکھا ہی نہیں۔ ہاں البتہ آپ عاشوراء کا رکھا کرتے تھے، اور آئندہ 9 کا بھی رکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل دونوں کے مطابق ابن عباس رضی اللہ عنہا کا اپنا عمل بھی تھا، اور اسی کی دوسروں کو ترغیب دلایا کرتے تھے۔ مصنف عبد الرزاق(4/ 287)( 7839) میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے کہ ابن عباس عاشوراء کے متعلق تلقین کیا کرتے تھے کہ : «خَالِفُوا الْيَهُودَ وَصُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ» یہودیوں کی مخالفت کرو اورنو، دس دونوں دنوں کا روزہ رکھو۔ یہی قول بسند صحیح (السنن المأثورة للشافعي (ص: 317)(337) میں بھی مذکور ہے۔

تیسری حدیث:

عن عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: حِينَ صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ» قَالَ: فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحيح مسلم (2/ 797) (1134)
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھنا اور رکھوانا شروع کردیا، تو صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول یہ دن یہودی ونصاری کے ہاں بھی لائقِ تعظیم سمجھا جاتا ہے، تو آپ نے ارشاد فرمایا: آئندہ سال ہم نو کا (بھی) روزہ رکھیں گے، لیکن آپ آئندہ سال سے قبل ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اس کے الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام نے بتایا کہ یہ دن یہود و نصاری کے دن تعظیم والا ہے، تو آپ نے کہا کہ میں آئندہ سال 9 کا روزہ رکھتا ہوں، حالانکہ پہلی احادیث میں یہ ہے کہ آپ نے 10 کا روزہ رکھنا ہی تب شروع کیا کہ یہودی لوگ اس کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ یہاں بظاہر دونوں احادیث میں تعارض محسوس ہوتا ہے، حالانکہ اس کا حل بالکل آسان ہے کہ نبی کریم نے موسی علیہ السلام کی پیروی میں 10 کا روزہ شروع کیا، اور آپ کو معلوم تھا کہ یہودی بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں، جب مسلمانوں نے اس دن کا ادب و احترام شروع کیا تو ساتھ یہودی بھی اس کی مزید تعظیم کرنے لگے، بلکہ ساتھ نصرانی بھی مل گئے، یوں ان کی مخالفت کے طور پر ساتھ 9 کا بھی رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
امامِ طحاوی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ذکر کرنے کےبعد فرماتے ہیں:
«لَأَصُومَنَّ يَوْمَ التَّاسِعِ» يَحْتَمِلُ لَأَصُومَنَّ يَوْمَ التَّاسِعِ مَعَ الْعَاشِرِ أَيْ لِئَلَّا أَقْصِدَ بِصَوْمِي إِلَى يَوْمِ عَاشُورَاءَ بِعَيْنِهِ , كَمَا يَفْعَلُ الْيَهُودُ , وَلَكِنْ أَخْلِطُهُ بِغَيْرِهِ , فَأَكُونُ قَدْ صُمْتُهُ , بِخِلَافِ مَا تَصُومُهُ يَهُودُ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَا يَدُلُّ عَلَى هَذَا الْمَعْنَى ۔(شرح معاني الآثار (2/ 77)
اس میں یہ معنی مراد ہوسکتا ہے کہ میں صرف دس کا روزہ نہیں رکھوں گا، جیسے یہودی رکھتے ہیں، بلکہ ساتھ اور بھی دن کا روزہ ملاؤں گا، یوں میرے اور یہودیوں کے روزے میں فرق ہوجائے، اور یہی مفہوم ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
پھر ابن عباس کا فتوی ذکر کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:
فَدَلَّ ذَلِكَ عَلَى أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَدْ صَرَفَ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَئِنْ عِشْتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ يَوْمَ التَّاسِعِ» إِلَى مَا صَرَفْنَاهُ إِلَيْهِ، وَقَدْ جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ أَيْضًا. (شرح معاني الآثار (2/ 78)
ثابت ہوا کہ حدیث کا جو معنی ہم نے بیان کیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ کےنزدیک بھی وہی مفہوم مراد ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس معنی میں حدیث ثابت([1]) ہے کہ آپ نے دس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد میں روزہ رکھنے کی ترغیب دلائی۔
امام نووی فرماتے ہیں:
قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ وَلَعَلَّ السَّبَبَ فِي صَوْمِ التَّاسِعِ مَعَ الْعَاشِرِ أَنْ لَا يَتَشَبَّهَ بِالْيَهُودِ فِي إِفْرَادِ الْعَاشِرِ وَفِي الْحَدِيثِ إِشَارَةٌ إِلَى هَذَا وَقِيلَ لِلِاحْتِيَاطِ فِي تَحْصِيلِ عَاشُورَاءَ وَالْأَوَّلُ أَوْلَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ. (شرح النووي على مسلم (8/ 13)
بعض علما کے نزدیک نو او ردس کو ملانے کی حکمت یہ ہے تاکہ یہود سے مشابہت نہ ہو، جو صرف دس کا رکھتے ہیں، اور حدیث میں اس طرف اشارہ بھی ہے، جبکہ ایک قول ہے کہ ساتھ نو کا برسبیلِ احتیاط ہے، لیکن پہلی توجیہ زیادہ بہتر ہے۔
بہرصورت دوسری توجیہ بھی بعض روایات میں ’مخافة أن يفوته عاشوراء‘ کے الفاظ سے نصا موجود ہے، لیکن اس کے شذوذ وعدم کے متعلق فی الحال تامل ہے۔ امامِ بیہقی نے معرفۃ السنن وغیرہ میں دونوں قسم کی روایات ذکر کرکے پھر امامِ شافعی سے بھی دونوں توجیہات ہی نقل کی ہیں۔
حضور نے یوم عاشوراء کا روزہ کب شروع کیا؟ اور اس کی توجیہ و سبب کیا تھا؟ اس حوالے سے نووی وابن حجر وغیرہ نے مزید کئی ایک روایات ذکر کی ہیں، اور ان میں توجیہ و توفیق کی کوشش کی ہے، لیکن ہمارے لیے یہاں اتنا بیان کردینا کافی ہے کہ آپ نے بہرصورت 10 کا روزہ یہود کے ساتھ رکھا، اور پھر 9 کابھی عزم کیا، تاکہ ان کی مخالفت ہوسکے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع سے ہی ان کی مخالفت کیوں نہ کی؟ اس کی بھی کئی ایک توجیہات ہیں، کہ شروع میں یہودیوں سے موافقت حکمت کا تقاضا تھا، جیسا کہ قبلہ میں موافقت رہی، وغیرہ۔
مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم میں 10 روزہ رکھا، اور آئندہ ساتھ 9 کو ملانے کا بھی عزم ظاہر کیا، لیکن اس پر آپ عمل نہ کرسکے، البتہ بعد میں صحابہ کرام اس پر عمل پیرا رہے۔

صرف 9 محرم والوں کے دلائل کا تجزیہ​

بحث و مباحثہ کے دوران معلوم ہوا کہ ان احباب کے پاس اپنے موقف کی اکلوتی دلیل یا تو کسی شیخ کی بیان کردہ تمثیل ہے، یا پھر یہ کہتے ہیں کہ ’التاسع‘ میں حصر ہے، یعنی حضور نے 9 بول دیا، تو بقیہ کی خود بخود نفی ہوگی۔ آپ اندازہ کیجیے، جو لوگ اقوالِ صحابہ اور اجماع جیسی پختہ دلیلوں کو بھی نہیں مانتے، وہ استدلال کرنے پر آئے ہیں تو کیا رہ گیا ہے؟ منطوق کو سامنے رکھ کر غیر منطوق کے متعلق دلالت اخذ کرنا، اس کا نام ہے، ’دلالۃ المفہوم‘ جسے اردو میں ہم ’مفہومِ مخالف‘ کہتے ہیں، اور اصولِ فقہ کی بنیادی مباحث سمجھنے والے بھی جانتے ہیں کہ ’دلالتِ مفہوم‘ دلالت کی کمزور ترین اقسام میں سے ہے، اور ’مفہوم العدد‘ اسی کی ایک قسم ہے۔

ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ’لأصومن التاسع‘ بغیر کسی سیاق و سباق کے ہوتا تو پھر بھی حصر والوں کی دلیل میں کوئی نہ کوئی وجاہت ہوتی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ’ یوم العاشر‘ یا ’عاشوراء‘ کی فضیلت و حکم بھی موجود ہے، تو پھر کس دلیل سے ایک کو دوسرے کا نقیض سمجھا جارہا ہے؟ حضور نے نوبھی بولا ہے، اس پر بھی عمل کریں، حضور نے دس بھی بولا اور روزہ رکھ کر بھی دکھایا، وہ بھی رکھیں۔

دو احادیث کو ایک دوسرے کے مخالف ظاہر کرنا، اور پھر ان میں ترجیح اور نسخ کی طرف جانا، یہ طرزِ عمل بھی محلِ نظر ہے، کیونکہ مختلف الحدیث کا بنیادی اصول ہے کہ تعارض کے وقت نصوص میں پہلے جمع وتطبیق کی کوشش کی جاتی ہے، جبکہ نسخ و ترجیح کے مراحل بعد کے ہیں۔
امام خطابی فرماتے ہیں:
وسبيل الحديثين إذا اختلفا في الظاهر وأمكن التوفيق بينهما وترتيب أحدهما على الآخر، أن لا يحملا على المنافاة ، ولا يضرب بعضها ببعض ، لكن يستعمل كل واحد منهما في موضعه، وبهذا جرت قضية العلماء في كثير من الحديث. (معالم السنن (3/68)
کہ جب احادیث میں تطبیق و توفیق ممکن ہو تو پھر انہیں ایک دوسرے کے متعارض و مخالف بنا کر پیش کرنا درست نہیں۔
امام نووی ایک مسئلہ میں بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ یہاں نسخ کی بات کرنا درست نہیں، کیونکہ یہاں جمع ممکن ہے، آپ کے الفاظ ہیں:
النسخ لا يصار إليه إلا إذا تعذر الجمع ولم يتعذر هنا. (المجموع شرح المهذب (ص: 8)

ہمت کرکے صرف نو والے احباب کی میں تین دلیلیں ڈھونڈ سکا ہوں:
عدد میں حصر، نسخ کا دعوی، اور بعض مختصر روایات سے استدلال۔ اور یہ بات بیان ہوچکی کہ تینوں جگہ پر استدلال کرنے میں انہوں نے تأمل وتدبر کی بجائے جلد بازی کی ہے، ذرا تفصیل میں جانے سے ان استدلالات کی کمزوری واضح ہوجاتی ہے۔
لہذا اس واضح رستے پر چلنا چاہیے، قرآن وسنت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، جس پر ائمہ کرام گامزن رہے، جن مسائل میں ائمہ کرام نے صراحت سے گفتگو کی ہے، وہاں ان کی دقتِ نظری کو سمجھنا چاہیے، ورنہ خود تفقہ و اجتہاد کے نام پر انسان ایک تو علما کی تغلیط میں مبتلا ہوتا، دوسرا خود علمی غلطیوں کا شکار ہوتا ہے ، اور تیسرا عوام نت نئے مسائل سن کر الگ اضطراب و پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ علماء کی تقلید کریں، کسی عالم کو غلط نہ کہیں، خود تفقہ و اجتہاد نہ کریں، یا عوام کے ڈر سے مسئلہ بدل لیں، لیکن ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ یہ سب مراحل چھوٹے نہیں ہیں، ان سیڑھیوں کو عبور کرنے سے پہلے کافی تامل و تدبر کی ضرورت ہے، اور جب آپ ایسا کوئی موقف رکھتے ہیں تو اس میں کوئی علمی وزن اور تحقیقی پختگی نظر آنی چاہیے، جس میں کسی کے لیے قناعت کا سامان موجود ہو۔
رہی یہ بات کہ یہ موقف فلاں قابلِ قدر علما کا بھی ہے، تو پھر یا تو ان کی بات کو جمہور کی مخالفت میں رد کرنا چاہیے، یا پھر ان کے موقف کو دلائل کے میدان میں ثابت کرنا چاہیے۔ ایک عالمِ دین کا نام لے کر دفاع میں کمزور دلیلیں پیش کرنا، یہ اس عالمِ دین کے عزت واحترام کے لیے بھی مناسب نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

[1] میں یہ حدیث ذکر نہیں کر رہا ہوں، کیونکہ اس کی سند میں کلام ہے، لیکن طحاوی نے اس سے استدلال کیا ہے، شاید ان کےنزدیک یہ روایت حسن لغیرہ کے درجہ میں قابلِ احتجاج ہو۔ واللہ اعلم۔

ابو حمدان حافظ خضر حیات