جس طرح ایک کمزور نگاہ والا شخص جو زمین پر کھڑا ہو اور اس کے سامنے گردوغبار بھی ہو اور اسی جگہ ایک تیز نگاہ والا شخص جو ایک اونچے مینار پر کھڑا ہو اور اس کے ہاتھ میں دوربین بھی ہو، ان دونوں کا ویژن برابر نہیں ہوتا، جو چیز دوسرے کو نظر آتی ہے ہو سکتا ہے پہلا شخص اس کے وجود سے ہی انکار کر دے!
عین اسی طرح ایک طالب علم کی شریعت پر نگاہ قطعاً اس قدر سطحی اور سرسری سی نہیں ہوتی جس قدر ایک عامی کی ہوتی ہے کہ جو صرف شریعت کی جزئیات (particulars) تک بلکہ جزئیات کے بھی فقط ظاہر تک، دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام اور بس !

ایک طالب علم جب شریعت کو دیکھتا ہے اس کی نگاہ میں ان جزئیات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ کن نصوص سے، کن اصولوں کی مدد سے اور کیسے اخذ کی گئی ہیں، ان میں سے کس اصول میں کس قدر قطعیت اور کس قدر ظنیت ہے۔ اس کو اصول الفقہ کہتے ہیں، پھر اس کی نگاہ صرف ان اصول پر نہیں ہوتی بلکہ ان جزئیات کے مجموعے پر (Collectively) بھی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کے سامنے یہ تصویر آتی ہے کہ فقہ کے ہر ہر باب (Specifically) شریعت کن کن قواعد کا خیال کر رہی ہے، اور پھر پوری شریعت کے مجموعے میں کن کن قواعد کو شارع نے ملحوظ رکھا ہے، اس کو قواعد فقہیہ کا علم کہتے ہیں ، اور پھر جب وہ پوری شریعت کو (Collectively) یا علمی اصطلاح میں استقرائی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اس کے سامنے شریعت کے مقاصد کی واضح تصویر بن جاتی ہے کہ شریعت کی تمام تر جزئیات دراصل کن بڑے بڑے مقاصد کی رعایت کرنے کے لیۓ مقرر کی گئی ہیں۔

اس کو مقاصد شریعت کا علم کہتے ہیں، اور ان میں سے ہر فن ایک مستقل میدان ہے جس میں اہل علم کی درجنوں تصانیف ہیں۔ شرع کو اس نظر سے دیکھنے والا شخص، دین کا مزاج شناس ہوتا ہے، اہل علم کے اقوال کا درست معنی کیا ہے، درست سیاق کیا ہے، کس نص کا درست محمل کیا ہے، یہ سب سمجھنے اور جاننے والا ہوتا ہے۔
ایسے میں جب ایک عامی شخص کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کسی عالم کو کسی نص کا معنی سمجھانا چاہ رہا ہے یا اس کو علماء کے کسی قول کا معنی سمجھانا چاہ رہا ہے تو ایسے شخص پر رحم آتا ہے کہ یہ نہ اپنی حقیقت سے واقف ہے نا مخاطب کی حقیقت سے اور نا ہی شریعت کی حقیقت سے !
اس کی بہت ساری مثالیں ہیں، مثلا منکر کا انکار کرنا کیا ہمیشہ خلوت میں ہونا چاہئے یا کبھی منکر پر اعلانیہ بھی نکیر کی جا سکتی ہے، کس وقت نصیحت پوشیدہ طور پر کرنی چاہیئے اور کب کسی برائی پر اعلانیہ نکیر کرنی چاہیئے، اس کے قواعد کیا ہیں؟
یا پھر، جدھر ایک طرف تواضع اور عاجزی انتہائی پسندیدہ چیز ہے وہاں بعض ایسے مواقع بھی ہیں جدھر تواضع اور عاجزی ناپسندیدہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں حرمت تک جا پہنچتی ہے، کس وقت تواضع پسندیدہ ہے اور کس وقت ناپسندیدہ؟
یا پھر مسلمان سے حسن ظن رکھنا اس کے بھی کچھ حدود وقیود ہیں اور کیا قواعد وضوابط ہیں؟
اور اس طرح کی بہت سی مثالیں مشاہدے میں آتی رہتی ہیں کہ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا عامی شخص جو اس بات کو نہیں سمجھتا کہ اس کی نگاہ کتنی محدود ہے وہ ایسے شخص پر جرات کر رہا ہوتا ہے جس کی نگاہ اس شخص سے کہیں دور تک دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اور یہ جرات بعض دفعہ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ ایسا شخص علم سے وابستہ افراد سے ہی الرجک ہو جاتا ہے!
کاش کہ ایسا شخص بجائے طلبۃ العلم کے اپنے جہل کو اور کوتاہ نظری کو خطرناک سمجھے، اپنی خودپسندی اور تعلی کو مورد الزام ٹھہرائے تو شاید یہی عمل اس کے لیۓ علم کے دروازے کے کھلنے کا سبب بن جائے !!!

سید عبداللہ طارق