لاکھوں افغان” مہاجرین” واپس افغانستان چلے گئے۔ لاکھوں وہ بھی جو خود بھی یہاں پیدا ہوئے اور ان کی اولادیں بھی یہیں پیدا ہو کر جواں بھی ہوئیں اور بہت سے تو دادے نانے بھی یہیں بن گئے لیکن وہ اس مٹی پر اس ملک میں اجنبی ہی رہے۔۔۔۔۔۔۔۔پھر آج یہاں سے اپنی زندگی اور نسلوں کی کمائی جمع پونجی سب کچھ لٹا کر یا اپنے ہاتھوں برباد کرکے اس دیس کی طرف چلے گئےجسے انہوں نے 45سال میں کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔
وہ خود نہیں ان کے باپ دادا لٹے پٹے یہاں آئے تھے، کیسے غیرت مند تھے کہ مہاجر ہو کر کبھی کسی نے بھیک نہ مانگی۔ کوڑے سے کاغذ پلاسٹک چنا، جوتے پالش کئے،قہوے بیچے ، ہر طرح کی مزدوریاں کیں اور اتنی ایمانداری اور جانفشانی سے کیں کہ سارے پاکستان کے لوگ مزدور لاتے وقت کہتے کہ کابلی پٹھان لانا بہت محنت سے کام کرتے ہیں، سب لوگ چوکیدار انہیں ہی رکھتے کہ یہ سب سے اچھے محافظ ہیں۔ اسی لیے تو کبھی کسی جرم میں ملوث نہ آئے جا سکے۔ کم کھانا پینا پھٹے پرانے کپڑے پہننا انہوں نے کبھی معیوب نہ سمجھا، کبھی کسی کو دیکھ کر متاثر نہیں ہوئے بلکہ محنت سے بہت کچھ بنایا ،جتنے سخت حالات رہے کبھی دین نماز داڑھی پردے سے ناطہ کمزور تک نہ کیا۔

ان کی خواتین کو کہیں مانگتا تو کجا محنت مزدوری یا باہر بے پردہ چلتا پھرتا بھی کوئی نہ دیکھ سکا اور مشکل سے مشکل وقت میں بھی انہوں نے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے اور پیسہ پیسہ پائی پائی جمع کرکے بڑے بڑے کاروبار بھی کھڑے کیے اور پاکستان کی معیشت کے مضبوط ستون بن گئے۔ انہوں نے لاکھوں پاکستانیوں کو بھی روزگار دیا اور یہاں کی معیشت بھی چلائی۔ وہ اسی کے ساتھ ہی ساتھ گاہے گاہے افغانستان بھی جاتے اور روسیوں سے بھی ٹکراتے اور دفاع پاکستان کی جنگ اپنے خون سے لڑتے اور پھر واپس آ کر دوبارہ محنت مزدوری میں جت جاتے۔ اول دن سے پاکستان کی سب سے بڑی تجارت افغانستان کے ساتھ ہی رہی اور اب بھی ہے آج وہ واپس جا رہے۔

کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ وہ بھی تو اسی جہاں اسی دنیا کے ملک ہیں کہ جن کے جہازوں میں بھی کوئی بچہ دوران سیر و سیاحت بھی پیدا ہو تو وہ ان کے ملک کا شہری بن جاتا ہے۔ آج لاکھوں پاکستانی دیار غیر کے اعلیٰ ترین ترقی یافتہ ممالک کے محض اسی وجہ سے پکے پکے برابر شہری ہیں کہ وہاں پیدا ہو گئے اور ایک یہ ہمارے افغان بھائی تھے جن کی تیسری نسل ہمارے ملک کی تعمیر و ترقی اور خدمت کرکے بھی یہاں اجنبی ہی رہی اور یہاں کی شہری نہ بن سکی۔ ملک تو کلمہ طیبہ کے نام پر مسلمانوں کے لیے بنا تھا لیکن انہیں یہاں جگہ نہ مل سکی۔
ہم امید اور دعا کرتے ہیں کہ جیسے انہوں نے یہاں اس ملک کو اپنے خون پسینے سے سینچا اور دست و بازو بنے ویسے ہی اب افغانستان کو بھی نئے سرے سے تعمیر کریں گے اور دنیا کو بتا دیں گے کہ ہم اب بھی وہی ہیں جن کو بندہ صحرائی اور مرد کوہستانی کہا گیا۔ اس دعا کے ساتھ بھی کہ اللہ وہ وقت لائے کہ مسلمان ممالک کی بھی یورپ امریکا کینیڈا آسٹریلیا وغیرہ کی طرح باہم سرحدیں مٹ جائیں اور ہم سب ایک ہی ہوں۔
افغان باقی کہسار باقی الحکم للہ الملک للہ

(حق سچ، علی عمران شاہین)