جتنے بھی مذاہب دنیا میں آئے ہیں اور جتنے بھی مذہبی ادوار آئے ہیں یا جو بھی دینی اپروچ کہیں تک پہنچی ہے بالاتفاق سبھی کے نزدیک دین میں کسی بھی کام کی مقدار نہیں دیکھی جاتی بلکہ معیار  دیکھا جاتا ہے اس کام کے پیچھے مقصد اور خلوص کو دیکھا جاتا ہے۔
آپ سچے ہیں اپنے وعدوں میں پکے ہیں اپنے نظریات سے وفادار ہیں قول و فعل میں تضاد کے بغیر صاف ستھری سوچ کے مالک ہیں۔ اپنی جنگ لڑنا جانتے ہیں اپنے نظریات کی اور اپنے اصولوں کی سرحدیں محفوظ رکھتے ہیں ملمع سازی نہیں کرتے جلدی ترقی کرنے کیلئے شارٹ کٹ ایسے مذموم راستے نہیں پکڑتے کہ ہوا کے چلنے کیساتھ ہی آپ اپنی لہریں بدلتے پھریں اور حرص اور طمع سے آنکھیں نم کرکے ترقی کرنے کیلئے یا کچھ حاصل کرنے کیلئے ہر کمینگی سے بھرے ہوئے راستے پر چلنے کو تیار ہوں۔
اگر اس مائنڈ سیٹ سے کوئی بھی تھوڑا بہت اچھا کام کرلیتے ہیں تو خدا کے ہاں بھی سرخرو ہیں اور ان لوگوں کے ہاں بھی آپ کامیاب ہیں جو معرفت رکھنے والے اور عزت و شرف کے قدردان ہیں۔ ہوسکتا ہے لوگوں کا بڑا مجمع آپکے اردگرد جمع نہ ہو لیکن کچھ سچائی کے قدردان پھر بھی آپکے ساتھ ہونگے بالخصوص آپکا اپنا ساتھ ہی کافی ہونا چاہیے جب اس سچائی کے راستے پر چل پڑے ہوں۔
آج بھی لوگوں میں برے اور اچھے کی تمیز “سچائی” ہی کرتی ہے.لوگوں نے اپنی اپنی شخصیتوں کے ماسک پہنے ہوئے ہیں اور اپنے جھنڈ بھی بنائے ہوئے ہیں لیکن یہاں کوئی ایک گروہ اچھا یا ایک برا نہیں بلکہ سچائی انکے درمیان “فیصل” ہے۔

کسی کا مدعی چاہے جو بھی ہو لیکن اپنے دعوے سے سچا کون ہے؟ آج بھی اچھائی کا یہی معیار ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی انسان سچا ہو لیکن ہارے ہوئے لشکر میں ہو! اور جیتے ہوئے لشکر میں کتنے ہی ایسے لوگ موجود ہوسکتے ہیں جو ملمع سازی اور کمینگی کے درجات عالیہ میں پہنچے ہوں! باہر کی دنیا میں بہت آسان ہوتا ہے سب کچھ چھپانا لیکن اندر کی دنیا میں یہ نہیں چلتا۔ جو سچا ہے وہی اپنے احساسات اور جذبات کیساتھ اطمینان سے بیٹھ سکتا ہے۔

اگر ہر طبقے کے ہاں مشھور ہونا ہے ہر دلعزیز بننا ہے تو بہت سے ایسے راستے موجود ہیں جن پر چلتے ہوئے آپ یہ سب کچھ بہت جلدی سے حاصل کرسکتے ہیں لیکن ان راستوں پر چلتے ہوئے آپ اپنے آپ کو اتنے ہلکا محسوس کرینگے جیسے جسم سے روح اور شخصیت پرواز کر چکی ہوں آپکو ملامت کرنے والا ضمیر، نفس لوامہ بجھ گیا ہو ایک روبوٹ کیطرح آپ کام کر رہے ہوں احساسات اور ایموشنز کے بغیر بالکل ایک ٹرمینیٹ کیطرح! روزانہ ایموشنلی بلیک میل ہورہے ہوں یہ عظمتوں والی زندگی نہیں ہے اور نہ ہی اسے میں شرف و عزت والی زندگی کہ سکتا ہوں۔ یہ تو ایسی زندگی ہے جس میں آپکی آزادی دوسرے کی آزادی آپکی جیت دوسرے کی جیت پر منحصر ہے۔ آخر کیا فائدہ ایسی زندگی کا جو مکمل طور پر آپکی ہو ہی نہ سکی!
یہ نہ تو بہادری ہے اور نہ ہی وہ طاقت جیسکا خواب مردے مومن دیکھتا ہے بلکہ طاقت اور بہادری تو اپنے آپ سے وفاداری اور جھوٹ، دھوکہ اور مصنوعیت سے بیزاری کا نام ہے۔
جس کی طبیعت میں جھوٹ ہو، چاہے خود سے ہو یا دوسروں سے ہو، بزدلی اور طرح طرح کے خوف خود بخود آجاتے ہیں۔ جس کو دنیا طاقت سمجھتی ہے، اس میں تدبیر کا کردار بہت کم ہے اور حالات کا زیادہ ہے۔ مگر سچّائی اور اور خود شناسی جو اندرونی طاقت،بہادری اور وقار کو پیدا کرتی ہے، وہ انسان کے اپنے ہاتھ میں زیادہ ہے.انسان جیسے جیسے اس راہ کو اپناتا ہے اپنے اندر کی طاقت کا مزید احساس ہوتا رہتا ہے. وہ حالات کے ماتحت ہونے کے بجائے اندر ہی اندر اس احساسِ طاقت کی لذت سے سرشار ہوتا ہے۔
اسی لیے جو لوگ کردار میں گرے ہوئے اور تصنع میں لت پت ہوتے ہیں وہ ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کا خوف اپنے دل میں رکھتے ہیں جبکہ ایک با کردار اور اپنے آپ سے کئیے گئے وعدوں میں وفادار اور سچا انسان ہمیشہ زندہ دلی اور دلیری سے ہر کام سر انجام دیتا ہے جب وہ بات کرتا ہے تو اسکی باڈی لینگویج اسکی باتوں اور خیالات سے مکمل طور پر یکسو اور ہم آہنگ نظر آتی ہے۔ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ اور ڈر کے بات کرتا ہے اور سیدھی بات منہ پر کرنے کی جسارت رکھتا ہے۔ گویا کہ جو خیالات اسکے دل و دماغ میں گردش کر رہے ہیں وہ انہیں بغیر کسی تصنع اور لگی لپٹی کے زبان دیتا ہے اور وہ الفاظ بن کر ظاہر ہورہے ہوتے ہیں۔

عمیر رمضان