کسی حرماں نصیب کو محبتوں کے روگ سہتے تو کسی ہجراں نصیب کو ہجر و فراق کے زخم برداشت کرتے ہوئے، ایک سال اور گزر گیا، زندگی پیہم گزرتی ہی جا رہی ہے، گزرتی ساعتوں کو بھلا کون روک پایا ہے؟ وقت کو کبھی زنجیر بپا نہیں کیا جا سکتا، رفتہ رفتہ یہ حضرتِ انسان موت کی بانہوں کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔ہم اطلسِ کمخواب پر محوِ استراحت ہوں یا مُونج اور کھجور کے بان کی چارپائی پر اپنی زیست کے ماہ و سال گزار رہے ہوں، بالآخر قبر کی تاریکیوں ہی میں گم ہو جائیں گے مگر اس حقیقت کا ادراک ہونے کے باوجود بھی یہ انسان حسرتوں کے غول اور خواہشات کے نرغے میں ایسا پھنس کر رہ گیا ہے کہ اپنی حتمی اور آخری منرل کو بالکل فراموش کر بیٹھا ہے۔وہ کسی بے وفا کی بے وفائی اور کسی کج ادا کی کج ادائی کے غم میں اپنی جان کو ہلکان کر دیتا ہے۔ناکام حسرتوں کی کامیابی کے لیے وہ متاعِ حیات تک ضائع کرتا چلا جاتا ہے۔کوئی اپنی اولاد کی تمناؤں کی تکمیل کے لیے حلال اور حرام میں امتیاز کھو بیٹھتا ہے، وہی اولاد کہ اگر والدین کی عمر لمبی ہو جائے تو انھیں اچھا خاصا سبق سکھا دیتی ہے۔کوئی اپنی خود ساختہ منزلِ مراد کھوجنے میں ساری عمر برباد کر رہا ہے۔صحت جیسی گراں مایہ نعمت سمیت دنیا کی ڈھیر ساری نعمتوں کے میسر ہونے کے باوجود بھی ہم شکوہ کناں ہی رہتے ہیں۔یہ حقیقت جان لینے کے باوجود کہ دنیا کی ساری نعمتیں تو کسی کو بھی میسر نہیں، ہم ایسے سامانِ عیش و نشاط کے حصول کے لیے زندگی کھپا دیتے ہیں کہ جو بعض اوقات کبھی مل ہی نہیں پاتیں۔ناصر کاظمی نے بہت عمدہ شعر کہا ہے:-
کَل جو تھا وہ آج نہیں، جو آج ہے کَل مٹ جائے گا
روکھی سوکھی جو مل جائے شُکر کرو تو بہتر ہے

چند ثانیوں کے لیے سوچیں کہ کیا کبھی ہماری زندگی میں ایسے لمحات بھی آئے ہیں کہ ہم نے دسمبر کی ٹھٹھرتی راتوں میں چپکے سے اٹھ کر یخ بستہ پانی سے وضو کر کے اپنے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر ان نعمتوں کا شُکر ادا کیا ہو، جن سے ہم ہمہ وقت مستفید ہو رہے ہیں۔اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم بڑے ہی سعید بخت ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہماری بدبختی میں کوئی شبہہ ہے ہی نہیں۔جو نعمتیں ہماری دسترس سے باہر ہیں، ان کی جستجو میں ہم ان نعمتوں کی شُکر گزاری کیوں بھول جاتے ہیں جو ہمارے پاس موجود ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ بھی احسان فراموشی میں دُور نکل جاتے ہیں، بہت ہی دُور، اتنی دُور کہ ہمارے کردار و عمل سے بغاوت کی بُو آنے لگتی ہے۔یہی بات اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں بیان کی ہے کہ ” انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشُکرا ہے “

جب کوئی بھی انسان مصائب و آلام اور امراض کے کسی بڑے گرداب میں پھنس جاتا ہے تو پھر اسے رب یاد آنے لگتا ہے، پھر جو نعمتیں اس سے چھین لی جاتی ہیں ان کی قدر و قیمت کا احساس اسے ہونے لگتا ہے، سخت عارضوں میں گِھرے شخص کے خیال کدے میں اپنی گم گشتہ نعمتوں کی اَہمیت جاگزیں ہونے لگتی ہے مگر اب تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا، بعض مسائل اور امراض ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا کوئی حل اور علاج موجود ہی نہیں سو حیات کے باقی لمحات انھی عارضوں کے ساتھ گزارنے پڑتے ہیں۔انسان کی بھلا اوقات ہی کیا ہے؟ یہ تو اتنا بے بس ہے کہ خود کو بکھرتے دیکھ کر بھی کچھ کر نہیں سکتا، لیکن اس بے چارگی کے باوجود اس کی اکڑ کم نہیں ہوتی۔افتخار عارف نے کیا خوب شعر کہا ہے!
خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
آپ کسی ذیابیطس کے مریض ہی کو دیکھ لیں کہ اس کے پاس اربوں روپے بھی ہوں اور کروڑوں روپے کی گاڑیاں اور سامان تعیشات بھی ہوں تب بھی وہ میٹھی چیزیں نہیں کھا سکتا، اس کے سامنے پڑی ہوئی میٹھی اور حلال چیزیں اس کے لیے زہر بن جاتی ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی خواہشات کے حصار سے نکل کر پریشان حال لوگوں کو دیکھیں اور کبھی کبھی ایسے بھی کیا کریں کہ ہسپتالوں میں جا کر کچھ عبرت حاصل کریں کہ لوگ کس کس بھیانک آزار میں مبتلا ہیں؟ یاد رکھیں کہ ہم جس بھی کیفیت یا حالت میں مبتلا ہوں ہمیں بہ ہر حال اللہ کا شُکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔صحیح بخاری کی حدیث 4836 ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کر دی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شُکر گزار بندہ نہ بنوں؟ ایک اور حدیث کا مطالعہ کر لیجیے۔مسند احمد میں ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب مسلمان کا بچہ فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کرلی۔ عرض کرتے ہیں: ہاں۔ فرمایا: تم نے اس کے دل کا پھل توڑ لیا؟ عرض کرتے ہیں: ہاں ، اللہ فرماتا ہے: پھر میرے بندے نے کیا کہا؟ عرض کرتے ہیں: تیرا شُکر کیا اور ’انا للہ و انا الیہ راجعون‘ پڑھا۔ اللہ فرماتا ہے میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام حمد کا مکان رکھو۔
ہم غم سے نڈھال ہوں تب بھی، ہماری ذات کسی کے انتظار میں ٹوٹ پھوٹ چکی ہو تب بھی ہمیں اللہ سے شکوہ کی بجائے شُکر ادا کرنا چاہیے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 8 میں فرماتے ہیں ” اور یاد کرو جب تمھارے رب نے اعلان فرما دیا کہ اگر تم میرا شُکر ادا کرو گے تو میں تمھیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشُکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے “
زندگی کا ایک سال اور کم ہونے کو ہے، اگر ہم ابھی تک کسی چیز سے محروم ہیں یا ہمارا کوئی سپنا ٹوٹ گیا ہے تو یقین کریں اسی میں ہمارے لیے بہتری ہو گی۔

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )