منافرت آلود منحوس سیاست کو پال پوس کر ایسا سانڈ بنا دیا گیا ہے کہ جو مُلک کی حفاظت اور سلامتی پر مامور اداروں کو پیہم ٹکریں مارتا چلا جا رہا ہے۔پیشہ ورانہ مہارت میں دنیا کی سب بہترین فوج کے خلاف شرانگیزی اور شرارت سوچے سمجھے منصوبے کا حصّہ ہے، ان سیاسی بزرجمہروں کے اس عامیانہ بلکہ وحشیانہ رویّے کی جس قدر بھی مذمّت اور مرمّت کی جائے، کم ہے۔ان کی گھناؤنی حرکات ملاحظہ کریں کہ سیاست میں مداخلت کا بہانہ بنا کر پاک فوج کو تو گَلے پھاڑ پھاڑ کر مطعون کرتے ہیں لیکن یہ سیاست دان خود امریکا کو پاکستانی سیاست میں مداخلت کرنے کی دعوت دینے کو جائز اور درست سمجھتے ہیں۔کیا امریکا ہماری فوج سے بھی زیادہ ہمارے ساتھ مخلص اور وفادار ہے؟ امریکی کانگریس کی رکن میکسین مور واٹرز کے سامنے عمران خان کی پاکستانی سیاست میں مداخلت کرنے کی التجائیں، فریادیں اور گزارشیں، کسی طور بھی ایک محبّ وطن سیاست دان کی شایانِ شان نہیں ہیں۔ابھی قلیل عرصہ قبل یہی زبان تھی جو امریکا کے خلاف مسلسل چلتی تھی، عین اِسی منہ، اسی زبان اور ان ہی لبوں سے امریکی ظلم سے حقیقی آزادی کے نعرے بہ بانگِ دہل برآمد ہو کر 22 کروڑ پاکستانیوں کی سماعتوں میں رَس گھول رہے تھے، یہی ایمان آفریں نعرے تھے جن کی بنا پر عمران خان کو ایک مسیحا اور نجات دہندہ سمجھ لیا گیا تھا۔چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے خلاف نعرہ زن ایک شخص کی عقیدت میں لوگ دیوانگی کی حدوں سے بھی گزر گئے تھے، ابھی چند ماہ قبل تک یہ شخص اپنی حکومت کے خاتمے کو بھی واشگاف الفاظ میں امریکی سازش کا شاخسانہ قرار دیتا تھا۔2018 ء کی ابتدا میں آئی ایم ایف کا طوق اتار پھینکنے کے وجد آفریں نعرے، عوام کے لیے دیدہ زیب سپنوں کا روپ دھار کر ہر ذہن میں جگنوؤں کی مانند جگمگاتے اور تتلیوں کی طرح اٹکھیلیاں کرتے تھے۔آج ان سابقہ دعووں اور نعروں کے بالکل برعکس اسی امریکا کے سامنے اپنی مظلومیت کے یہ ٹسوے کسی پاکستانی کے دل کو بھلے نہیں لگ رہے۔میکسین مور واٹرز کی سامنے مظلومیت سے لدے الفاظ دیکھیے کہ ” چاہتا ہوں کہ آپ کی جانب سے ہمارے حق میں آواز بلند ہو، آپ اگر امریکا سے ہمارے لیے آواز اٹھائیں تو اس کے اثرات ہوں گے، تاریخ کا بد ترین جبر ہم پر ہو رہا ہے “ اپنی حکومت کی برطرفی کا الزام امریکا پر لگانے والے اور اسی بنیاد پر پی ڈی ایم کی حکومت کو ” امپورٹڈ حکومت “ کا طعنہ دینے والے شخص کی میکسین مور واٹرز کی بارگاہ میں یہ دُہائیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ حب الوطنی کے تمام دعوے اور ریاستِ مدینہ کے ایمانی غلغلے محض اقتدار کے حصول کے ہتھکنڈوں سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتے تھے۔یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حصولِ اقتدار ہی ان کا اصل مطمحِ نظر ہے، خواہ اس کے لیے اپنی انا، خودی اور ملکی وقار کو بھی امریکی چرنوں میں رکھنا پڑ جائے، تب بھی یہ سب کچھ کرنے میں ذرا تردّد نہیں برتیں گے۔ابھی چند ماہ قبل تک جو بھی عمران خان کا مخالف تھا، اسے امریکی اتحادی قرار دیا جا رہا تھا اور آج چشمِ فلک یہ تماشا بھی دیکھ کر حیران ہے کہ امریکا کے خلاف ” شعور و آگہی “ دینے والا وہی ” نجات دہندہ “ خود امریکا کے سامنے اقتدار کی بھیک لینے کے لیے جھولی پسارے بیٹھا ہے۔خفیہ طور پر میکسین مور واٹرز کے سامنے ان ترلوں کو کوئی بھی نام دینے سے مَیں قاصر ہوں، بس میرا یہ یقین مزید پختہ ہو گیا کہ اقتدار نہ ملنے کی صورت میں یہ لوگ پاکستان کو بدنام کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے، کرسی کا نشہ انھیں اتنا مدہوش کر دیتا ہے کہ اپنے ہی مُلک کی معیشت کا بھی جان بوجھ کر ستیاناس کرنا پڑے، تب بھی یہ ” عظیم سیاسی قائد “ گریز نہیں برتتے اور یہ شعلہ بار منظر بھی سب دیکھ چکے ہیں کہ اقتدار چِھن جانے کی صورت میں اگر اپنے ہی وطن میں انتشار اور انارکی پیدا کرنی پڑے، تو یہ بھی ان کے لیے بڑا ہی آسان ہے۔اقتدار کے لیے عجلت دیکھیے کہ چند دن قبل تک عمران خان کو یقینِ واثق بھی تھا کہ الیکشن ہم ہی جیتیں گے، بڑی سے بڑی رکاوٹ فقط یہ تھی کہ انتخابات چند ماہ تک مؤخر کیے جا سکتے تھے، یعنی زیادہ سے زیادہ چھے مہینے بعد یہ اقتدار عمران خان کو ملنے والا تھا، لیکن چند ماہ انتظار اس شخص سے نہ ہو سکا اور مُلک کو آگ لگا دی گئی، شہدا کی یادگاروں کو بھسم کر دیا گیا، جناح ہاؤس کو نذرِ آتش کر دیا گیا، سارے مُلک کے امن و امان کو نیست و نابود کر کے آگ اور خون کا ایسا کھیل کھیلا گیا جس سے ہمارے دشمنوں کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی، یہی نہیں بلکہ پوری توانائی کے ساتھ پاک فوج کے اعلا افسران کا نام لے لے کر اپنے اندر کا عناد و بغض باہر نکالا گیا، مَیں سمجھتا ہوں عمران خان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں حقیقی آزادی کے نام پر آزادی کا فرسودہ تصور راسخ کر دیا گیا۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔حب الوطنی کا رنگ ڈھنگ اتنا بھیانک نہیں ہُوا کرتا۔ہماری وفاؤں کا مستحق سب سے پہلے پاکستان ہے، یہاں کی فوج ہے، ہمارے سیکیورٹی ادارے ہیں، ان کا وقار اور شان بہ ہر طور سب سے مقدّم ہے، جو بھی شخص ہمارے اداروں کے خلاف زبان درازی کرے گا، ہم ان کا رد کرتے ہیں۔حمیدہ شاہین کے اشعار ہیں:
جس طرف سے بھی ملاوٹ کی رسد ہے، رد ہے
ایک رتّی بھی اگر خواہش بد ہے، رد ہے
دکھ دیے ہیں زرِ خالص کی پرکھ نے، لیکن
جس تعلق میں کہیں کینہ و کد ہے، رد ہے