آج زمان پارک اجڑ چکا، سیاسی گہما گہمی کا مرکز گہنا گیا، وہ دل رُبا چہل پہل، وہ راحتِ جاں رونقیں اور جاں فزا بہاریں سب رخصت ہو چکیں، بادِ صبا اور بادِ نسیم کی جگہ بادِ سموم کے جھکّڑ یوں چل پڑے کہ ویرانیاں بھی دَم بہ خود ہیں۔ابھی چند ہفتے قبل تک جہاں سے راحتِ آمیز لَپٹیں اور نشاط انگیز جھونکے امڈ کر سیاسی ماحول کو گرمائے ہُوئے تھے، آج وہاں سے سیاست کی کنارہ کشی کے بعد اجاڑ رُتوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔زمان پارک میں ہزاروں لوگوں کے حصار پر عمران خان کے ذہن میں جو طنطنہ، تکبر اور کروفر تھا، وہ سب بے بسی اور بے چارگی سے منسلک نحیف و نزار لہجوں میں ڈھل چکا۔خزائیں یوں اچانک آ دھمکی ہیں، یہ تو کسی نے سوچا تک نہ ہو گا، صحنِ گلشن میں جان سے پیارے لوگ اس طرح کج ادائی اور بے وفائی کے داغ دے جاتے ہیں، یہ منظر تو شاید عشق و مَحبّت کی کسی لوک داستان میں بھی موجود نہ ہو۔ابھی چند روز قبل تک عجیب شوکت و سطوت تھی، ایک ایسا طمطراق تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں رشک تو کیا حسد کیا کرتی تھی۔عمران خان پر سب کچھ وار دینے کے بلند بانگ دعوے کرنے والے سب یار بیلی، سنگی ساتھی، گرم ہَوا کا ایک ابتدائی تھپیڑا تک نہ سہ سکے، آج زمان پارک میں جدائیوں اور ہجر و فراق کے سلسلے وسیع اور طویل ہوتے جا رہے ہیں۔پی ٹی آئی کے عشق میں گرفتار درجنوں عشاق، ہرجائی بن کر کسی نہ کسی سایہ ء عاطفت تلے محوِ استراحت ہو چکے، فاروق چوہان اپنی تمام تر بزلہ سنجی سمیت عین بیچ منجدھار عمران خان سے راہیں جدا کر چکا۔مغموم و مسموم ڈاکٹر شیریں مزاری، گرداب کی ذرا تاب نہ لا سکِیں اور اپنی محبوب جماعت کو چھوڑ کر رخصت ہو گئیں۔ملیکہ بخاری کے اعتماد کا سارا حُسن جمال عمران خان سے روٹھ چکا۔عمران خان کا دیوانہ وہ فواد چودھری جس نے بڑی ہی آسانی کے ساتھ اپنی مَحبّتوں کا سرے سے انکار ہی کر دیا اور چاہتوں کے منکر اس شخص کی زبان تک نہ لڑکھڑائی، عمران اسماعیل نے بڑے ” مضبوط دلائل “ کے ساتھ پی ٹی آئی کے عشق اور فریفتگی سے کنارہ کشی کر لی۔فردوس عاشق اعوان کے دل میں موجود ساری وفاؤں کو محض ایک گرد باد اچک لے گیا اور اسے اچانک ہی محسوس ہو گیا کہ اس کے دل میں عمران خان کی عقیدت تو مکر و فریب کے سوا کچھ بھی نہ تھی، سو اسے بھی یقین ہو چکا کہ عمران خان کی راہیں حب الوطنی سے سرشار اور شاداب نہیں ہیں۔وہ جو سات سُروں سمیت عمران خان کی مداح سرائی کرنا اپنا فریضہ سمجھتا تھا، اس ابرار الحق کی اشک آلود آنکھیں، ان کی وفاداریاں بدلنے کا کفارہ کبھی نہیں ہو سکتیں۔” عشق و مَحبّت “ کی کوئی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی کہانی بھی اتنے بے وفائیوں اور ہرجائیوں پر مشتمل نہیں ہو سکتی، جو عمران خان کے حصّے میں آئے ہیں۔حالات نے یہ کیسا پلٹا کھایا ہے کہ اپنی زندگیاں پی ٹی آئی کے لیے وقف کر دینے کے دعوے دار، آزار اور صعوبتوں کی شروعات میں ہی اپنے عہد و پیمان اور قول و قرار پسِ پشت ڈال کر، جس کو جیسی بھی تنگ گلی ملی وہ اپنی عافیت سمجھ کر نکل گیا۔شکیل جاذب کا یہ شعر یہاں صادق آتا ہے۔
نگاہ و دل کے تمام رشتے فضائے عالَم سے کٹ گئے ہیں
جدائیوں کے عذاب موسم بساطِ ہستی الٹ گئے ہیں
یہاں چند لمحوں کے لیے توقف کریں اور جذباتیت کی بجائے مکمل شعور اور آگہی کے ساتھ ان عوامل پر غور کریں کہ جنھوں نے سب سے مقبول اور محبوب سیاسی جماعت کے قائد کو معتوب اور مذموم بنا کر رکھ دیا۔ارشاد بھٹی کا یہ حکیمانہ قول میرے دل کو لگا کہ عمران خان کا سب سے بڑا دشمن خود عمران خان ہے۔ایک طویل عرصے تک پاکستان کی سلامتی پر مامور اداروں پر اس طرح دشنام طرازی کرنا کہ بھارتی، اسرائیلی اور امریکی آرمی چیفس کو بھی پاک فوج کے خلاف اس طرح طعن و تشنیع کرنے کی آج تک جراَت نہ ہوئی، ایک بہت بڑا سنگین جرم ہے۔ریاستِ مدینہ کا نام لے کر یہ سب منحوس شرانگیزی کی جاتی رہی۔” اوئے توئے “ سے لے کر سب سیاست دانوں کو غدار جیسے القابات سے پکارتے چلے جانا، تکبر کے باعث کسی ادارے کو خاطر میں نہ لانا، وہ سنگین جرائم ہیں کہ جن کے باعث خود عمران خان نے زمان پارک کی بہاریں نوچ کھائیں۔
لیکن اس ساری سیاسی دھینگا مشتی اور جنگ و جدل کے دوران، نہ جانے کیوں میرے ذہن میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تحفظ کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔اس سیاسی انتشار اور خلفشار میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کسی طور بھی ذہنوں سے محو نہ ہونے دیجیے، اس لیے کہ آج بھی ہمارا ایٹمی پروگرام عالمی طاقتوں کی آنکھ میں کالا موتیا اور دل میں نوکیلے بھالے کی مانند کھب کر تکلیف اور اذیت کا باعث بنا ہُوا ہے۔آئی ایم ایف نے وہ تمام کڑی شرائط منوا لی ہیں کہ جن کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہمارے ملکی وقار اور ایک ایٹمی ملک کی شان اور توقیر کے خلاف تھا، اب فقط ایک ہی شرط باقی رہ گئی ہے، وہ ہے سی ٹی بی ٹی پر دستخط۔اس سیاسی چپقلش میں ایٹمی پروگرام سے متعلق آئی ایم ایف کی کہیں کوئی ایسی شرط نہ مان لی جائے کہ جس کے ازالے کے لیے صدیوں تک ہم آزار سہتے رہیں۔
عمران خان کا نیا فرمان ہے کہ بہت جلد ” سرپرائز دوں گا “ خدا کے لیے اب ایسے کسی سرپرائز کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے کہ جس نے ہمارے شہدا کی یادگاروں تک کو بھسم کر ڈالا۔جدائیوں کے اس ناہنجار موسم میں سرپرائز کی بجائے اپنی غلطیوں پر غور کریں اور ان کے ازالے کے لیے سنجیدہ جتن کریں، شاید کہ بہار کا کوئی ایک آدھ جھونکا لوٹ آئے۔