آپ کسی بھی درد کا تعاقب کر کے دیکھ لیں، اپنے مُلک کی سرزمین میں سنسناتے اور اپنی قوم کے بدن میں کلبلاتے کسی بھی کرب کی ٹوہ اور کھوج لگا لیں، اس کے کُھرے بھارت جا پہنچیں گے۔ایل او سی، سے لے کر سی پیک تک، پشاور سے لے کر کراچی تک صعوبتوں کے جتنے بھی گوشوارے ہیں، سب بھارت کے مرتّب اور مسلّط کردہ ہیں۔آپ کسی بھی سازش کا گھونگٹ اٹھا کر دیکھ لیں، سامنے بھارت کا بھیانک چہرہ دکھائی دے گا اور آپ کسی بھی دہشت گردی کی باقاعدہ اور منظّم طریقے سے چھان پھٹک کر کے آزما لیں، ہر زخم کے عقب میں بھارت نقب لگائے بیٹھا ہو گا۔پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کی جتنی اقسام اور سازشوں کی جس قدر اصناف ہیں، اِن کا موجد اور موجب بھارت کے سوا کوئی اور نہیں۔چِین نے پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تو بھارتی ایوانوں میں کھلبلی اور صفِ ماتم بچھ گئی تھی، پھر چِین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا حجم 124 ارب ڈالر تک بڑھا دیا۔بھارت کے پیٹ میں درد اٹھ گیا تھا اور سی پیک کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔سب جانتے ہیں کہ پانی کی موجودگی حیات اور عدم موجودگی ممات ہوتی ہے، ذرا اپنے دریاﺅں میں اڑتی ریت کو دیکھ کر سوچیے کہ سارا پانی کہاں چلا گیا؟ ہمارا سارا پانی بھارت اپنی توند میں اتار چکا، ہمارے بدن میں پانی کی کمی کے باعث اضطراب بڑھنے لگا ہے۔ دریائے چناب کا 98 فی صد حصّہ خشک ہو چکا، اس دریا میں موجود پانی کی آمد 17333 کیوسک ہے۔نہر مرالہ راوی لنک کئی ماہ سے پیاس کے مارے اداس ہے۔سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھی بھارت دریائے چناب میں روزانہ 55 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہے۔لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہوتی جا رہی ہے۔
بھارتی سازشوں کا ہجوم اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب کَھوَے سے کَھوا چِھلنے لگا ہے۔پانی کی یہ کمی ہمارے جسم کو کس قدر نڈھال اور لاغر کر دے گی، اس کا ادراک ہمارے سیاسی جوانوں اور پہلوانوں کو ابھی نہیں ہو رہا۔یہ سارے سیاست دان محض اقتدار کے لیے اکھاڑے سجائے بیٹھے ہیں۔بھارتی سازشوں کے اس چھاتی پھونک تماشے پر امریکی جنرل جوزف ووٹل بھی کچھ عرصہ قبل یوں لب کشائی کر چکا ہے۔ ”پاکستان کو سفارتی تنہائی میں دھکیلنے کے لیے بھارت، پاکستان کے ساتھ دو طرفہ رابطوں اور مذاکرات میں رکاوٹ ڈال رہا ہے اور کشیدگی میں اضافے کو مسلسل ہَوا دے رہا ہے، جس کے نتائج وعواقب خطرناک ہو سکتے ہیں۔پاک بھارت کی یہ کشیدگی ایٹمی جنگ کی وجہ بن سکتی ہے“۔
بھارتی دہشت گردی اب کوئی خاص پردہ نشین نہیں رہی بلکہ مکمّل طور پر بے حجاب اور عریاں ہو کر دنیا کے سامنے آ کھڑی ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی عیّاریوں کو سمجھنے کے لیے اب کسی تیشہ زنی کی ضرورت ہے نہ تحقیق وتفتیش کی۔جنرل دیپک کمار پاکستان کو دھمکیاں دیتا تھا، پھر بپّن راوت بھی دھمکیاں دے رہا کہ بھارت کی فوج بہ یک وقت پاکستان اور چِین سے جنگ لڑنے کے لیے تیار ہے۔بپّن راوت کہتا تھا کہ ہم ایک ہی وقت میں ڈھائی محاذوں پر جنگ لڑ سکتے ہیں“۔ شاید بپّن راوت یہ بھول چکا تھا کہ بھوک کے ستائے اُس کے فوجی جوان تو سوشل میڈیا پر آ کر روٹی کے لیے دہائی دے رہے ہیں۔وہ بھوکی فوج کیا لڑے گی جو دال روٹی کے لیے ترستی ہو؟ اگرچہ بھارتی دھمکیاں اب گیدڑ بھبکی سے زیادہ اَہمّیت نہیں رکھتی۔پاکستان کا کوئی ایک بچہ بھی ان دھمکیوں کو بھارت کی دماغی سوزش اور عقل کے خلل سے زیادہ اَہمّیت نہیں دیتا مگر ان دھمکیوں سے بھارتی جارحیت تو ساری دنیا پر عیاں ہوتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قہر کسی پہر بند نہیں ہو رہا، بندوقوں کے سائے تلے اور آگ اور بارود کے ماحول میں 70 سال گزارنے کے باوجود کشمیر کے اہلِ جنوں لوگوں پر بھارت کا کوئی خوف مسلِّط نہیں۔وہ جان وتن کی اتنی قربانیاں دے چکے ہیں کہ اب ہر خوف وہراس سے ماورا ہو چکے ہیں، سو خوف مسلّط کرنے کا بھارتی خواب اب نہ صرف بوسیدہ ہو چکا، بلکہ بھارت کے لیے عذاب بن چکا ہے۔ بھارتی فوج کی شمالی کمانڈ کے ایک اعلا فوجی کمانڈر نے یہ اعتراف کیا تھا کہ بھارتی فوج کشمیر میں دل و دماغ کی جنگ جیتنے میں ناکامی سے دوچار ہو رہی ہے۔کشمیر کا ہر مجاہد اب اصغر گونڈوی کے اس شعر کی مانند، موجِ حوادث سے کھیلنے کو اپنا معمول سمجھنے لگا ہے۔
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے​
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
مشرقی پاکستان کو جدا کرنے کا اعتراف مودی کر چکا ہے، بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے لیے مودی اپنی کارستانیوں کو تسلیم کر چکا۔ نتائج وعواقب سے بے پروا ہو کر بھارت بڑی روانی کے ساتھ چھیڑ خانی کر کے اِس خطّے کے امن، سکون اور شانتی کو خطرات کی دلدل میں دھنساتا چلا جا رہا ہے۔دیکھ لیجیے! بھارتی جارحیت کے سبب سری نگر لہولہان ہے، بھارتی سازشوں کے باعث پاکستان کے تمام دریا محوِ فغاں ہیں، بھارتی عیّاریوں ہی کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت میں موجود سیکڑوں مساجد نوحہ کناں ہیں اور بھارتی اشتعال کے سبب آج ایل او سی کی فضائیں مغموم اور مسموم ہو چکیں، اور اب پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن سی پیک بھارت سے ہضم نہیں ہو رہا۔سازشوں کی کڑی اور چِلچلاتی دھوپ مسلّط کر کے وہ اگر خوابِ غفلت کی ان کھائیوں میں پڑا ہے کہ پاکستان کو دباﺅ میں رکھ کر اپنے مذموم مقاصد کو پورا کر لے گا تو یہ اُس کی سب سے بڑی حماقت ہے، وہ اگر پاکستانی فوج اور عوام کے جوش جنوں اور جذب دروں کی ان طغیانیوں کو بھول رہا ہے جس کا نظارہ 1965ء کی جنگ میں کیا تھا تو مَیں پھر یاد دلا دیتا ہوں کہ سترہ دنوں کی اس جنگ کے بعد بھارت اقوامِ متّحدہ کے قدموں میں جا پڑا تھا کہ جنگ بندی کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور مَیں اُس کے دماغ کا یہ کیڑا نکالنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ 1971ء میں جنگ نہیں، سازش ہوئی تھی اور اب ان سازشوں کا دور لد چکا ہے۔