جب ہم کہتے ہیں کہ عورتوں کا “کیرئیر وومن” بننا فیمنسٹ پراپیگنڈا کے اثرات ہیں، اسلام میں اسکا کوئی تصور نہیں، تو سب سے پہلا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ کیا عورت جاب نہ کرے؟ کوئی اور کمانے والا نہ ہو تو کیا کرے؟ شوہر نکھٹو ہو تو بھوکی مرے؟ وغیرہ وغیرہ
یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ بہت سی مغربی اصطلاحات اور تصورات کی طرح ہمیں “کیرئیر وومن” کے مفہوم سے بھی کوئی آشنائی نہیں۔ ہم ہر جاب کرنے والی خاتون کو کیرئیر وومن سمجھتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔۔۔ مجبوری میں، یا بطور ٹیچر یا ڈاکٹر دوسری خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے جاب کرنا اور بات ہے۔ یعنی نیت یہ ہو کہ ان خواتین کو مردوں سے نہیں پڑھنا چاہیے تو میں انہیں پڑھاؤں گی۔ یا پھر خواتین کیلئے خاتون ڈاکٹر کا ہونا بہتر ہے، خصوصاً بطور گائناکالوجسٹ، تو میں یہ فرض کفایہ ادا کرتی ہوں۔۔۔ و علی ھذا القیاس۔۔۔
اس کے برعکس “کیرئیر وومن” وہ عورت ہے جس کی زندگی میں پہلی ترجیح اسکا کیرئیر ہے۔ اسکی خاطر وہ سب کچھ قربان کر سکتی ہے۔ یہ کیرئیر کی خاطر اچھے اچھے رشتے ٹھکرا دے گی اور شادی کو ٹالتی رہے گی۔ شادی کر لے تو بچوں کی پیدائش میں تاخیر کرے گی۔ یہ وہ عورت ہے جسے پیسوں کی کوئی مجبوری نہیں، لیکن اپنے کیریئر کیلئے اسے طلاق بھی لینی پڑے تو لے لے گی۔ انتہائی کیسز میں بچوں کو چھوڑنا پڑے تو انہیں بھی چھوڑ دے گی۔ یہ وہ عورت ہے جسکا مقصد دنیا کو بتانا ہے کہ کیرئیر کے معاملے میں عورت کسی مرد سے کم نہیں۔ اسکا مقصد اوپر سے اوپر جانا اور اپنی طاقت کو انجوائے کرنا ہے۔ اسکی دنیا اسکا گھر نہیں، اسکا دفتر ہے۔ مردوں کو اپنے ماتحت کام کرتے دیکھنا اسکا نشہ ہے۔ اور پھر یہ چاہتی ہے کہ اسکا شوہر بھی قوام بننے کے دعوے سے دستبردار ہو کر، دفتری ملازمین کی طرح اسکا ماتحت بن کر رہے۔ یا کم از کم اسے بھی گھر میں اتنے ہی اختیارات دے جتنے اسکے اپنے ہیں۔ یہ حفاظت اور اجازت والے “فرسودہ خیالات” اپنے پاس رکھے۔۔۔
اب آپ ہی بتائیں، کیا ایک مسلم خاتون کیرئیر وومن بن سکتی ہے؟
کیا آپ کیرئیر وومن بننا چاہیں گی؟

ڈاکٹر رضوان اسد خان