لوگ عجیب مخمصوں اور خرخشوں میں گِھر چکے ہیں، بے چارے عوام سلگتے اور دہکتے مسائل کا ایندھن بنتے جا رہے ہیں، آج 22 کروڑ لوگ شدید اضطرب اور بے کلی میں مبتلا ہیں۔شاید ہماری سیاست بانجھ ہو چکی کہ اس کی کوکھ سے کوئی ایسا دیدہ وَر سیاست دان پیدا نہیں ہو رہا کہ جو واقعی چارہ گر اور چارہ ساز ہو، جو مسائل کی دلدلوں میں دھنسے لوگوں کے درد کا درماں کر سکے۔آج تک محض لچھے دار باتیں ہی کی گئیں، خوش نما اور دیدہ زیب نعروں سے عوام کا دل بہلایا گیا اور عوام بھی اتنے بھولے اور معصوم ہیں کہ ہر بار کسی نہ کسی نعرے کے دامِ فریب میں مبتلا ہو کر سابقہ مصائب کو بھول کر آس اور امید کی نئی سازشوں میں پھنسنے کے لیے خود سپردگی پر اتر آتے ہیں۔اختر ہوشیارپوری نے کہا تھا۔
چمن کے رنگ و بُو نے اِس قدر دھوکا دیا مجھ کو
کہ مَیں نے شوقِ گُل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
ٹی وی ٹاک شوز میں اِن سیاسی شعبدہ بازوں کی گفتگو سنیں تو محسوس ہو گا کہ سارے پاکستان کا درد ان کے جگر میں ہے اور یہ اقتدار میں آتے ہی عوام کا ہر غم غلط کر دیں گے، یہ کرسی پر بیٹھتے ہی، دکھیارے لوگوں کے ایک ایک کرب کا مداوا کر ڈالیں گے۔آج سماعتوں میں رَس گھولنے والے تمام نعروں کی دل فریبی اور خوش نمائی ماند پڑ چکی ہے، مُلک و ملّت کو مسائل کے گرداب اور بھنور سے نکالنے کے تمام دعووں کی زیبایش اور دل کشی کجلا چکی ہے۔ان تمام سیاسی جادوگروں کو پاکستان کے مسائل کا خوب علم ہے، انھیں مسائل کے حل کا بھی ادراک ہے مگر ان میں اتنی سیاسی جراَت ہی نہیں کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کریں۔یہ تمام سیاسی پہلوان بس ایک کام ہی اچھے طریقے سے سر انجام دیتے ہیں اور وہ سابقہ حکومت پر اتہامات و الزامات کے تیر و نشتر چلانا ہے۔
نئے اور توانا عزم کے ساتھ پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آئی تو جنوں خیز عوام شاداں و فرحاں تھے کہ اب پاکستان کی کایا پلٹ دی جائے گی مگر عوام کا بُھرکس کچھ اس طرح نکال دیا گیا کہ اپنے پرائے سب کی چیخیں نکل گئیں، پونے چار سالوں تک ایک ہی صدا کی بازگشت کانوں میں گونجتی رہی کہ سابقہ حکومت نے سب کچھ برباد کر کے رکھ دیا سو اتنی بڑی تباہی کو ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔پھر پی ڈی ایم کا ” تجربہ کار “ سیاسی اتحاد اقتدار میں آیا اور معیشت کا اس طرح بیڑا غرق کر کے رکھ دیا کہ لوگ سابقہ تمام گھاؤ بھول کر موجودہ زخموں پر تلملائے جا رہے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ” روٹی کپڑا اور مکان “ سے لے کر ” نئے پاکستان “ تک کے تمام نعرے ٹھس ہو چکے، ان تمام دعووں میں کوئی رتّی برابر بھی صداقت آج تک دِکھائی نہ دی۔عوام کو کہیں بھی ” جائے سکوں “ تو کجا ” جائے عافیت “ تک نہ مل سکی۔دیکھ لیجیے! ایک طرف چور ڈاکو کی صدائیں ہیں تو دوسری سمت غدار غدار کے واویلے، مُلک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہ چکیں، پیپلز پارٹی حکومت کے مزے لے چکی، نون لیگ نے طویل عرصے تک اقتدار کے چسکے لے لیے، پی ٹی آئی عوام میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑ کر اقتدار سے لطف اندوز ہو چکی، اور آج قدرت نے یہ عجیب رنگ بھی دِکھا دیا کہ ایک ہی وقت میں تقریبآ تمام سیاسی پارٹیاں مل کر حکومت کے مزے لے رہی ہیں، مسیحائی کا دعویٰ کرنے والے تمام سیاسی زعما حکومت میں ہیں مگر عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ جو شخص بھی سیاست اور حکومت میں آتا ہے اربوں پتی ہو جاتا ہے جب کہ عوام کی الجھنیں اور آلام اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔بہزاد لکھنوی کا شعر ہے۔
وفاؤں کے بدلے جفا کر رہے ہیں
مَیں کیا کر رہا ہوں وہ کیا کر رہے ہیں
ان سیاسی مداریوں کی تمام تر امنگیں اور خواہشیں آئی ایم ایف سے ملنے والی قرضے کی نئی قسط سے جُڑی ہوتی ہیں، اور اس مہم جوئی میں کامیابی پر یہ خوشی سے بغلیں بجانے لگتے ہیں۔آئی ایم سے آگے یا دائیں بائیں کسی بھی پہلو پر یہ لوگ سوچنے پر آمادہ ہی نہیں، انھیں خوب علم ہے کہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کا غلام بن چکا ہے، یہاں بجلی سے لے کر پٹرولیم تک تمام مصنوعات کی قیمتیں آئی ایم ایف طے کرتا ہے۔جب بھی یہ ادارہ قرضے کے حصول کے لیے کڑی شرائط عائد کرتا ہے تو ہماری وزارتِ خزانہ سے لے کر وزارتِ عظمیٰ تک دست بستہ گزارشوں اور فریادوں پر اتر آتی ہیں کہ براہِ مہربانی شرائط میں کچھ نرمی کریں۔ان سب سیاسی اداکاروں نے ہمارے پاکستان کو آئی ایم ایف کا پاکستان بنا دیا ہے۔ہماری معیشت تباہی کی شکار ہے، ہمارے ذخائر ختم ہو رہے ہیں اور یہ سیاست دان آڈیو اور ویڈیو لیکس کے کھیل کھیلنے میں مگن ہیں۔ایک مستحکم معیشت کے لیے کوئی ٹھوس اور جامع منصوبہ سازی تو کجا، یہ تمام سیاست دان مل کر آٹے کی قیمتوں تک کو لگام نہیں دے سکتے، یہاں کبھی پیاز کی قیمتیں دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں تو کبھی ٹماٹر کی بھاؤ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ڈالر کو بیڑیاں ڈالنے کے ماہر اور مشّاق لوگوں کے تمام دعوے فرسودہ اور بے کار ہو چکے۔عوام کے لیے بہت کچھ کرنے کے دعوے کرنے والے اقتدار میں آ کر اپنے لیے سب کچھ کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔زرد پتّوں کی مانند کل بھی عوام کے چہرے بے رونق تھے اور آج بھی مسموم و مغموم ہیں۔شفیق خلش نے کیا ہی خوب صورت مصرعے کہے ہیں۔
دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں
دل پر ہمارے زخم، اُنھی کی سزا کے ہیں
ہر بار اُن کی جھوٹ پہ آ جاتا ہے یقیں
الفاظ یوں زباں پہ وہ لاتے سجا کے ہیں