عید نام ہے فرحت و مَسرّت سے شاداب لمحات کا، انبساط و نشاط سے مزیّن احساسات کا، سکون اور سرور سے مرتّب جذبات کا، اللہ رب العزّت نے انسان کو خوش کرنے، چاہتوں سے نوازنے اور پیار و مَحبّت کے شگوفے بکھیرنے کے لیے عید کا اہتمام فرمایا۔عید جذبات و احساسات میں امرت سا گھول دیتی ہے مگر تصویر کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ انسانوں کی اکثریت کے سینے پریشانیوں اور تفکّرات کی آماج گاہ بن گئے ہیں، خوشیوں کو یہ اپنے قریب تک پھٹکنے نہیں دیتے، لوگ کسی طور خوش رہنا ہی نہیں چاہتے، عوام النّاس کی اکثریت غریب یا درمیانے طبقے سے تعلق رکھتی ہے سو ان کی زندگیوں میں بڑے بڑے انقلابات رونما نہیں ہوتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے یہ خوشیاں کشید کرنا نہیں چاہتے پھر ہم خوش کیسے رہ سکتے ہیں؟ اس حقیقت سے بھی مفر نہیں کہ ہم خوشیوں کے متلاشی لوگ ان مادی کونوں کھدروں میں خوشیاں کھوجنے جا گُھستے ہیں جہاں درد و کرب اپنے دانتوں کو کٹکٹاتے ہمارے منتظر ہوتے ہیں۔ربّ رحمان، نبیِ ذی شان اور منزّہ قرآن سے رُو گردانی کر کے بھلا مادیت پسندی میں خوشیاں کب ملتی ہیں؟
عید کا لفظی مطلب ہے بار بار آنے والی یعنی اللہ ربّ العزّت انسان کو پیہم خوش رکھنا چاہتے ہیں مگر حضرتِ انسان دنیا کی ضروریات پر اس قدر رِیجھ بیٹھا ہے کہ ہزار جتن کے باوجود چند مسکراہٹوں کے لیے اس کے پاس موقع و محل ہی نہیں۔کسی دانا کا قول ہے کہ جب پانچ سیکنڈ کی مسکراہٹ سے تصویر خوب صورت بن سکتی ہے تو ہمیشہ خوش رہنے سے زندگی کتنی دل رُبا ہو جائے گی! انسان کی پریشانیوں اور الجھنوں کا ایک بنیادی سبب اس کا منفی اندازِ فکر ہے جو دیمک کی طرح خوشیاں ہی نہیں شخصیت کو بھی چاٹ کھاتا ہے۔مَیں نے کتنے ہی اعلا تعلیم یافتہ لوگوں کو دیکھا ہے کہ منفی خیالات کے باعث نہ صرف ان کی شخصیت کو پیوند لگ گئے ہیں بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں کُملا اور تحقیقی اوصاف بھی پژمردہ ہو کر رہ گئے ہیں ۔منفی رجحان رکھنے والے لوگ کسی دل میں گھر کرتے ہیں نہ کوئی ان کا دل سے احترام کرتا ہے۔ایسے لوگ تعمیری کام کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں۔ان کی نظریں تنقید سے شروع ہو کر تنقید پر ٹھس ہو جاتی ہیں، مجھے کہنے دیجیے! کہ ان کے خیالات میں لفظوں کے غنچے اگتے ہیں نہ خوش نما جملوں کے سرووسمن مہکتے ہیں۔مَیں نے کہیں پڑھا تھا کہ لفظوں کے دانت نہیں ہوتے مگر یہ کاٹتے بہت ہیں، الفاظ اسی وقت ڈستے ہیں جب خیالات میں منفی پن کی بُو آنے لگے۔منفی لوگوں کی بساطِ فکر اور قرطاسِ دل دونوں پر ایسے لفظ اگتے چلے جاتے ہیں جو حسد کی آگ کو انگیخت دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، انھیں کوئی کام اچھا لگتا ہے نہ وہ خود اچھا کام کرتے ہیں، وہ اشکالات کے وزن تلے دبتے ہی چلے جاتے ہیں، اعتراضات کا بوجھ ان کے قد کاٹھ کو گھٹاتا چلا جاتا ہے، وہ حقیر اور معمولی باتوں کو جواز بنا کر اعلا اور غیر معمولی کام کی راہ میں رخنے حائل کرنے سے کسی موقعے پر نہیں چُوکتے۔اسلام نے سوچ اور فکر کے دھاروں کو یوں بے سمت اور شترِ بے مہار نہیں چھوڑا بلکہ ان کے گرد کچھ شگفتہ اور دل آویز حدود و قیود کھینچی ہیں، ایسی بندشیں کہ اگر انسان ان سے گریز پائی نہ برتے تو سکہ بند کردار سے مزیّن و مرتّب ایک دل نشیں معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔میرے ان رشحاتِ قلم کا مرکز و منبع وہ احادیث رسولؐ ہیں جو قریباً ہر شخص نے سُن رکھی ہیں۔اپنی سوچ کو مثبت رکھنے کے لیے اسلام نے خصوصی اہتمام فرمایا مگر ان احادیث کی گہرائی پر غور کرنا اور پھر ان کو اپنے کردار و عمل کا حصّہ بنانا، شاذ ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔مسند احمد میں ہے کہ نبیِ مکرّمؐ نے ایک شخص کو دو دن تک جنتی ہونے کی بشارت دی تو ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ اس صحابی کے اعمال کو دیکھنے اس کے گھر گئے۔عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے اس کے روز مرّہ کے معمولات کو دیکھا مگر کوئی ایسا نیک عمل نظر نہیں ائا جو عبداللہ بن عمرو بن العاص خود نہ کرتے ہوں تو انھوں نے اس صحابی سے استفسار کیا، وہ یوں گویا ہوئے کہ مَیں جب رات کو سوتا ہوں تو تمام لوگوں کو معاف کر کے سوتا ہوں شاید میرا یہی عمل ہے جس کی بنا پر رسول اللہؐ نے مجھے جنتی ہونے کی نوید سنائی ہے۔دوسروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کر کے سونا، دوسروں کے متعلق سوچ کو مثبت رکھنے کی ایک لطیف اور درخشندہ مثال ہے۔معاشرے میں اخلاق، مَحبّت، اخوت اور چاہت کے سوتے اسی وقت پھوٹتے ہیں جب سوچ اور فکر درست سمت کی طرف گامزن ہوں۔منفی احساسات تو عناد و بغض ہی کو انگیخت دیتے ہیں۔
خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا صرف آپ کی شخصیت ہی کو جاذبِ نظر نہیں بناتا بلکہ عارضہ ء قلب سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔جدید تحقیق کے مطابق ایسے لوگ جو خوش رہتے ہیں اور مثبت سوچ کے مالک ہوتے ہیں ان کو عارضہ ء قلب ہونے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔تحقیق کے مطابق ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے لوگوں کو دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ منفی سوچ کو خود پر غالب نہ ہونے دیا جائے تا کہ ایک صحت سے بھرپور زندگی گزاری جائے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ خوش رہنے والوں کو دل کی تکالیف سرے سے ہوتی ہی نہیں بلکہ دل کے امراض کے دیگر اسباب بھی ہیں۔چند سال قبل کینیڈا کی میکگل یونی وَرسٹی کے ڈاکٹر لیوپیئن نے 92 عمر رسیدہ افراد کا پندرہ سالوں تک جائزہ لیا اور ان کے دماغ کے عکس کا تجزیہ کیا، اپنی تحقیق کے دوران انھیں معلوم ہُوا کہ منفی سوچ اور احساسِ کمتری کے شکار لوگوں کے دماغ کا حجم ان لوگوں کے مقابلے میں کم ہو جاتا ہے جو اپنے اور دیگر افراد کے بارے میں اچھا سوچتے ہیں۔ڈاکٹر لیوپیئن کا کہنا تھا کہ اگر ان لوگوں کے سوچنے کے ڈھنگ میں تبدیلی لائی جائے تو ان کے دماغی زوال کو روکا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ذہنی قوت کی بازیابی ممکن ہے، پہلے سمجھا جاتا تھا کہ یہ ممکن نہیں۔جانوروں اور انسانوں پر کیے گئے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ماحول کو بہتر بنایا جائے اور چند عناصر کو تبدیل کر دیا جائے تو دماغ کی قوت اور ہیئت معمول پر واپس لائی جا سکتی ہے۔بہ قول سائنس دانوں کے جب منفی خیالات دماغ میں رینگنے لگتے ہیں تو اس کے دماغ کا زوال شروع ہو جاتا ہے، جدید سائنس یہ ثابت کرتی ہے کہ دماغ کا حجم جتنا بڑا ہو گا اتنا ہی وہ ذہین ہو گا، اگر دماغ کا حجم کم ہو تو پھر ذہانت متاثر ہوتی چلی جاتی ہے۔منفی خیالات انسان کے دماغ کو چھوٹا کرتے ہیں۔انسان دیگر جان داروں سے اس لیے زیادہ ذہین ہے کہ باقی مخلوق کے مقابلے میں اس کے دماغ کا وزن سب سے زیادہ ہے، ہاتھی کا وزن سو من سے سے بھی زیادہ ہوتا ہے مگر اس کے دماغ کا وزن پانچ کلو تک ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہاتھی ذہانت کی صلاحیتوں سے محروم ہے، مگر ڈیڑھ دو من کے انسان کے دماغ کا اوسط وزن ایک کلو اور دو سو گرام ہے، یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ جدید سائنس کے مطابق مَردوں کے دماغ کا حجم عورتوں سے بڑا ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مَردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے۔آپ نے دولے شاہ کے چوہے کے نام سے مشہور کچھ بچے ضرور دیکھے ہوں گے وہ اسی لیے بھولے اور کند ذہن ہوتے ہیں کہ بچپن ہی میں ان کے سَروں پر لوہے کے کڑے اور سانچے پہنا دیے جاتے ہیں، اس لیے اُن کے سَر کی نشوونما نہ ہونے کے باعث، ان کا دماغ چھوٹا رہ جاتا ہے سو وہ بچے ذہانت کی صلاحیتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
دوسروں کی خوشیوں اور دکھ درد میں شامل ہونے سے بھی انسان کی فکر مثبت اور سکون دوبالا ہو جاتا ہے۔عید اپنے جلو میں ایسی ہی عادات اور خصائل لے کر آتی ہے۔عید کا پیغام، اسلام کی دعوت اور جدید سائنس کی تحقیق بھی یہی ہے کہ اپنی سوچ اور فکر کو اپنے اور دوسرے افراد کے لیے مثبت رکھا جائے، انسان جو اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرے اور رات کو جب خلوت نشیں ہو کر نیند کے پہلو میں جانے کی تیاری کرے تو سب مسلمانوں کو معاف کر کے نیند کی آغوش میں جائے یہی عیدِ سعید ہے اور میری طرف سے یہی عید کا مَحبّت آفریں تحفہ ہے۔