ہم وحشتوں سے گِھرے آنگنوں میں تو رہنا گوارا کر لیتے ہیں، لوگ بے قراری اور اضطراب سے اٹے مکانوں میں تو شب و روز بِتا لینا برداشت کر لیتے ہیں، جدید دنیا کے باسی یہ حضرتِ انسان تنہائیوں سے لدے کمروں میں تو زندگی گزارنا پسند کر لیتے ہیں مگر جھوٹی انا اور تکبر کے خول سے نکل کر کسی ناراض شخص کو منا لینا کبھی پسند نہیں کرتے۔مَیں نے کتنے ہی احباب کو محرومیوں کی تپش میں اپنی زیست کو تمام کرتے تو دیکھا ہے مگر کسی خفا اور روٹھے شخص کو منا لینے پر آمادہ نہیں دیکھا۔لوگ آئنے جوڑنے نہیں بلکہ توڑنے کے ماہر ہیں، لوگ خود ہی بات کا بتنگڑ بنا کر اپنے ذہنوں منفی خیالات کے الاؤ بھڑکانے کے خوگر ہیں، تنہائیوں سے لبا لب بھرے قلب و نظر انا کے مرگھٹ پر دَم توڑنا تو برداشت کر لیتے ہیں مگر عید کے دن بھی تخیّلات میں ذرا سا لطف و کرم پیدا کرنا کبھی گوارا نہیں کرتے۔اسلم کولسری نے ایسی ہی منظر کشی یوں کی ہے۔

عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفّل کر کے
مجھے اپنے عہدِ طفولیت کے وہ ایام اچھی طرح یاد ہیں جب خاندان اور برادری میں جتنا بھی تند و تلخ جھگڑا ہو جاتا مگر عید کے دن صلح ضرور ہو جاتی تھی۔قرابت داروں میں جس قدر بھی مناقشت یا چپقلش ہو جاتی لوگ ایک دوسرے کو منا لینے ہی کو عید سمجھتے تھے، گزرے ماہ و سال کی وہ انفرادیت آج بھی ہمارے ذہنوں میں تابندہ ہے جب لوگ عید کی نماز ادا کرتے ہی اپنے روٹھے بھائی بہنوں کو منانے کے لیے خراماں خراماں چلے آتے تھے۔یہی تو عید کا اصل تقاضا ہوتا ہے کہ اس دن کوئی شخص کسی سے بھی روٹھا نہ رہے، دل صاف ہو جائیں، خیالات میں عداوت کی جگہ طہارت دًر آئے اور مَن میں کوئی مَیل باقی نہ رہے۔رانا عامر لیاقت کا شعر ہے۔
تُو کوئی خواب نہیں جس سے کنارا کر لیں
کیوں نہ پہلے سے تعلق پہ گزارا کر لیں
آج لوگ عداوتوں میں حدِ اعتدال سے بغاوت کر چکے ہیں۔اعتذار کے وقار سے کہیں پرے بھٹکتے لوگ معافی تلافی سے کوسوں دُور لڑھک چکے ہیں۔آج اعلا تعلیم یافتہ لوگ بھی نام نہاد انا کے خول سے باہر آنا ہی نہیں چاہتے، لوگوں نے تعلقات بنانے، سنوارنے اور بحال کرنے میں پہل نہ کرنے کو انا سمجھ لیا ہے، انا کی یہ بھونڈی شکل اور ناروا تشریح و تعبیر ماضی میں ہمارے اسلاف اور اجداد کی زندگیوں میں کہیں دِکھائی نہیں دیتی۔انا بڑا ہی تمکنت آمیز اور طنطنہ خیز جذبہ تھا مگر ہم نے اپنے مکروہ متکبرانہ عمل اور ڈھیٹ پَن اور منفی رجحان کی بھینٹ چڑھا کر اس لفظ کا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا۔جلیل حیدر لاشاری کے شعر ہیں۔
بند کر بیٹھے ہو گھر ردّ بلا کی خاطر
ایک کھڑکی تو کُھلی رکھتے ہَوا کی خاطر
بھینٹ چڑھتے رہے ہر دَور میں انساں کتنے
فردِ واحد کی فقط جھوٹی انا کی خاطر
تعلقات قطع کرنا اور پھر اِس مذموم رویّے پر ڈٹ جانا، ایک ایسا فعل ہے جو معاشرتی حیات کو مسائل کی آماج گاہ بنا دیتا ہے۔متفق علیہ حدیث ہے۔
” ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین راتوں سے زیادہ اپنے بھائی سے قطعِ تعلقی رکھے، اس طور پر کہ ان کا آمنا سامنا ہو تو وہ ایک دوسرے سے منہ موڑ لیں۔ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کر لے “
اگر آپ کے جذبات و احساسات میں انا کی تلخیاں حد سے تجاوز کر چکی ہے یا منفی اندازِ فکر آپ کی شریانوں میں سرایت کر چکا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بشارت ضرور پڑھ لیں جو جامع ترمذی کی حدیث نمبر 2509 میں موجود ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کیا میں تمھیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتا دوں جو درجے میں نماز، روزے اور صدقے سے بھی افضل ہے، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی، کیوں نہیں؟ ضرور بتائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” وہ لڑنے والوں میں صلح کروا دینا ہے، اس لیے کہ آپس کی پُھوٹ دِین کو مونڈنے والی ہے“۔
انا کی کوکھ میں پرورش پانے والے انسان کے دل میں ایسے خیالات ہی ہمکتے ہیں کہ ” میرا مقام اور مرتبہ زیادہ ہے، مَیں رشتے میں بڑا ہوں، غلطی میری نہیں، سو مَیں اس کے سامنے کیوں جھکوں؟ وہ خود چل کر آئے، مَیں نے اُس پر درجنوں احسانات کر رکھے ہیں، وہ سَرکش اور خود غرض، سو اسے معافی مانگنے میں پہل کرنی چاہیے، مَیں مرنا تو گوارا کر سکتا ہوں مگر اس سے معافی نہیں مانگ سکتا، اگر مَیں نے معافی مانگی تو وہ اپنی سرکشی اور گھمنڈ میں مزید پختہ ہو جائے گا “ انا کے مریض کی زبان پر ایسے ہی جملے ہوتے ہیں۔
اکثر و بیشتر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جس سے ناراض ہوں اس سے مَحبّت بھی شدید کرتے ہوتے ہیں، گویا ہم اپنی مَحبّتوں کو بھی انا پر قربان کر ڈالتے ہیں، ہم مقدّس و محترم رشتوں کو بھی اپنی انا پر وار دیتے ہیں۔عید کا حقیقی سندیسا یہ ہے کہ آپ ان رشتوں کو منا لینے میں پہل کر لیجیے! جن کے ساتھ آپ تعلقات قطع کر چکے ہیں۔جب اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کہے کہ پہل کرنے والے کا اجر زیادہ ہے تو اس اجر کی عظمت اور بڑائی کا احاطہ کرنا ہی ناممکن ہے۔اعتبار ساجد کا بہت پیارا شعر ہے۔
تعلق کرچیوں کی شکل میں بکھرا تو ہے پھر بھی
شکستہ آئنوں کو جوڑ دینا چاہتے ہیں ہم