فیمن ازم ایک تحریک ہے جس کی بنیاد ایک خالص سیاسی فلسفے پر ہے (سیاست کے وسیع تر معنی میں)، جس کا ایک مخصوص ایجنڈا ہے کہ دنیا سے یہ تسلیم کروایا جائے کہ عورت ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے اور اس سوچ کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے کہ کسی بھی مسئلے میں وہ مرد کی محتاج ہے یا یہ کہ زندگی کے کسی بھی فیصلے میں اسے مرد کی رضامندی کی ضرورت ہے۔
فیمن ازم میں اسی بات کو عورتوں کا بنیادی حق قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک نکتہ اس فلسفے سے نکال دیں، تو پیچھے جو بچتا ہے وہ اور تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، فیمن ازم نہیں۔۔۔۔
دوسری طرف گائنیکالوجی ایک خالصتاً سائنسی شعبہ ہے جس کا تعلق خواتین کے طبی مسائل سے ہے
اب بہت سے مریضوں کے بہت سے طبی مسائل ان کی سوشل لائف کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اور اسکی بیشمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
مثلاً بڑھاپے میں کچھ مردوں کے مثانے کے گرد، ان کا پروسٹیٹ گلینڈ بڑھ جاتا ہے جس سے انہیں پیشاب روکنے میں مشکل ہوتی ہے۔ اسکی وجہ سے انکا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا، مسجد جانا۔۔۔ یہ سب امور متاثر ہوتے ہیں۔ سوشل لائف تباہ ہو جاتی ہے۔ البتہ ادویات یا سرجری کے ذریعے یہ لوگ نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔۔۔
اسی طرح خواتین میں بھی کچھ طبی وجوہات کی وجہ سے پیشاب خطا ہو جانے کا مسئلہ ہو سکتا ہے اور اس سے انہیں بہت سے معاشرتی مسائل ہو سکتے ہیں۔ انکا بھی علاج کیا جائے تو یہ بھی ٹھیک ہو جاتی ہیں۔
مردوں کے مخصوص طبی مسائل سے متعلق شعبے کو میڈیکل سائنس میں “اینڈرولوجی” کہا جاتا ہے۔
آج تک کسی مرد نے یہ نہیں کہا کہ اینڈرولوجی کو سمجھنے کیلئے مردوں سے متعلق فلاں فلسفے یا سیاسی تحریک، مثلاً ریڈ پِل یا میگٹاؤ (*MGTOW)، کو سمجھنا ضروری ہے۔ (یہ دونوں تحاریک فیمن ازم کے رد عمل کے طور پر وجود میں آئی ہیں اور اتنی ہی بودی اور فضول ہیں)
اب اگر کوئی گائنیکالوجسٹ یہ کہے کہ عورتوں کے گائنی کے مسائل اسوقت تک سمجھ نہیں آئیں گے(یعنی آپ انہیں قابل توجہ نہیں سمجھیں گے) جب تک آپ فیمن ازم کو نہیں سمجھتے (مراد ہے کہ قبول نہیں کرتے)۔۔۔۔۔ تو اس مکس اچار سے یہی پتہ چلتا ہے کہ یا تو انہیں فیمن ازم کی حدود کا علم نہیں، یا پھر گائنیکالوجی کی حدود سے نابلد ہیں۔۔۔!!!

ڈاکٹر رضوان اسد خان