پل میں گولہ پل میں ماسہ:- ایک فاضل دوست نے اپنے کالم میں ” پَل میں تولہ پَل میں ماشہ “ کی بجائے ” پل میں گولہ پل میں ماسہ “ کی ترکیب استعمال کی تو بہت دکھ ہُوا کہ قومی اخبارات میں کالم نگار کتنی بے احتیاطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ادارتی صفحات کے ذمہ داروں کو کم از کم ایسی اغلاط تو درست کر دینی چاہییں، اِس نوع کی غلطیوں کو ہمیشہ کمپوزر کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کمپوزنگ کے بعد تحریر کو دوبارہ نہیں پڑھا جاتا؟ کیا ادارتی صفحے کا مدیر کالمز کو پڑھنے کا تکلّف نہیں کرتا؟ اِس قسم کی اغلاط کسی بھی اخبار کے ادارتی صفحے کے مدیر کی قابلیت پر بھی سوال اٹھا رہی ہوتی ہیں۔یہ کہاوت مختلف انداز میں مستعمل ہے، مثلاً ” گاہے تولہ گاہے ماشہ، کبھی تولہ کبھی ماشہ، ماشہ تولہ ہونا اور پَل میں تولہ پَل میں ماشہ “ یہ سب اردو زبان میں مستعمل ہیں، اِن کے معانی ہیں ” متلون مزاج ہونا, رنگ بہ رنگی طبیعت ہونا “ وغیرہ مگر ہم نے آج تک ” پل میں گولہ پل میں ماسہ “ کبھی نہیں پڑھا۔وامق جون پوری کا یہ شعر اُن کی کتاب ” جرس “ کے صفحہ نمبر 158 پر موجود ہے۔یہ کتاب دانش محل، امین الدّولہ پارک لکھنؤ نے جولائی 1950 ء میں شائع کی تھی۔
پَل میں تولہ، پَل میں ماشہ، پَل میں سب درہم برہم
ذرّہ ء خاکی نظریں ملائے بیٹھے ہیں سیّاروں سے
مشکور:- بہت سے احباب شُکر ادا کرنے والے کے لفظ ” مشکور “ استعمال کرتے ہیں، مثلاً ” مَیں آپ کا مشکور ہوں “ جب کہ صورتِ حال اِس کے برعکس ہے، یعنی یہ لفظ شُکر ادا کرنے والے کے لیے نہیں بلکہ جس کا شُکر ادا کیا جا رہا ہو اُس کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے، شُکر ادا کرنے والے کو چاہیے کہ وہ ” شُکر گزار “ استعمال کرے مثلاً ” مَیں آپ کا شُکر گزار ہوں “ بہادر شاہ ظفر کا شعر ملاحظہ کریں۔
لوگوں کا احسان ہے مجھ پر اور ترا مَیں شُکر گزار
تِیر نظر سے تم نے مارا لاش اٹھائی لوگوں نے
سنہری:- قلم و قرطاس سے وابستہ اکثر لوگ مذکر اور مؤنث دونوں الفاظ کے ساتھ ” سنہری “ استعمال کرتے ہیں، حالاں کہ فقط مؤنث الفاظ کے ساتھ ہی لفظ ” سنہری “ لکھنا چاہیے، مذکر الفاظ کے ساتھ ہمیشہ ” سنہرا “ استعمال کیا جانا چاہیے۔سلیم احمد نے اپنے اِس مطلعے میں ” کشتی “ کے ساتھ ” سنہری “ استعمال کیا ہے، اِس لیے کہ ” کشتی “ مؤنث ہے۔یہ شعر اُن کی کتاب ” چراغِ نیم شب “ کے صفحہ نمبر 66 پر موجود ہے، یہ کتاب 1985 ء میں مکتبہ اسلوب کراچی سے شائع ہُوئی۔
بیٹھے ہیں سنہری کشتی میں اور سامنے نیلا پانی ہے
وہ ہنستی آنکھیں پوچھتی ہیں یہ کتنا گہرا پانی ہے
” دھوپ “ بھی مؤنث لفظ ہے، اِسی لیے سلیم بے تاب نے اِس مطلعے میں ” سنہری “ استعمال کیا ہے۔
یوں سنہری دھوپ بکھری ہے رُخِ کہسار پر
جس طرح غازہ چمکتا ہے ترے رخسار پر
اب بشیر بدر کا مطلع بھی پڑھ لیں جس میں مذکر لفظ ” جام “ کے ساتھ ” سنہرا “ استعمال کیا گیا ہے۔یہ شعر اُن کی کتاب ” آمد “ کے صفحہ نمبر 75 پر شائع ہو چکا ہے، یہ کتاب ناصر پبلیکیشنز اردو بازار کراچی سے 1994 ء میں شائع ہو چکی ہے۔
ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے​
چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں، جب شام ہو جائے​
عوام:- تقریباً ہمارے سبھی سیاست دان لفظ ” عوام “ کو مؤنث کے طور پر استعمال کرتے ہیں، حالاں کہ یہ لفظ مذکر ہے۔” ارمغانِ حجاز “ میں موجود نظم ” ابلیس کی مجلسِ شوریٰ “ میں حضرت علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کا شعر ہے۔
اِس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اِس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
” ضربِ کلیم “ میں بھی ” عوام “ کو مذکر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
اِس میں پیری کی کرامت ہے نہ مِیری کا ہے زور
سیکڑوں صدیوں سے خوگر ہیں غلامی کے عوام
غیض و غضب:- ” غیض “ اور ” غیظ “ دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں۔” غیض “ کا مطلب ہے، بہت تھوڑا، ناقص، نامکمل یا ادھورا بچہ جو حمل سے ساقط ہو گیا ہو۔” غیظ “ کے معانی ہیں ” غصّہ، غضب، قہر، طیش “ اِس لیے ” غیض و غضب “ کی بجائے ” غیظ و غضب “ لکھنا چاہیے۔
نقصِ امن:- ” نقص “ کمی، خرابی، سقم یا عیب کو کہتے ہیں۔” امن “ میں نقص یعنی ” سقم “ یا ” عیب “ کبھی نہیں ہُوا کرتا، یہ لفظ دراصل ” نقضِ امن “ ہے۔” نقض “ کا مطلب ہے ” ٹوٹ پھوٹ “ یا ” ٹوٹنے کا عمل “ جس طرح ” نقضِ اشعہ “ ( شعاعوں کی ٹوٹ پھوٹ ) ” نقضِ بیعت “ ( بیعت کرنے کے بعد پِھر جانا یا بیعت توڑنا ) ” نقضِ معاہدہ “ ( معاہدہ توڑنا ) اِسی طرح یہ لفظ ” نقضِ امن “ ہے، یعنی ( امن شکنی کرنا )
بلند و بانگ:- ” بلند “ کا معنی ” اونچی “ واؤ کا مطلب ” اور “ بانگ کا معنی ہے ” آواز “ گویا بلند و بانگ کا مطلب ہُوا ” اونچی اور آواز “ یہ بے معنی بات ہو گئی، سیدھا سادہ سا لفظ ” بلند بانگ “ ہے، جس کا مطلب ہے ” اونچی آواز “ اِس لیے اِس لفظ میں خواہ مخواہ ” واؤ “ کو گھسیڑنے کی کوشش مت کریں۔
خط و کتابت:- ’’ خط و کتابت ‘‘ لکھنا بھی غلط ہے ” کتابت “ کا معنی ہے ” لکھنا “خط کتابت ‘‘ کا مطلب ہُوا ” خط لکھنا “۔اگر اِس لفظ میں واؤ شامل کریں گے تو خط و کتابت کا معنی ہو جائے گا ” خط اور لکھنا “ چناں چہ ” خط و کتابت “ بالکل غلط ہو گیا، کیوں کہ یہ بے معنی بات ہو گئی ہے۔