ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا، تاکہ وہ انھیں اس کا کچھ مزہ چکھائے جو انھوں نے کیا ہے، تاکہ وہ باز آجائیں۔
الروم : 41

اس آیت مبارکہ میں (فساد، خرابی) سے مراد ہر آفت اور مصیبت ہے، چاہے وہ جنگ و جدال اور قتل و غارت کی صورت میں نازل ہو یا قحط، بیماری، فصلوں کی تباہی، بدحالی، سیلاب اور زلزلے وغیرہ کی صورت میں ہو۔

اور فرمایا

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ

اور جو بھی تمھیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے در گزر کر جاتا ہے۔
الشورى : 30

 

امام طبری رحمہ اللہ کا بیماریوں سے بچنے کاانمول نسخہ

امام طبری رحمه الله سو سال زیادہ عمر ہونے کے باوجود عقل ، جسمانی قوت اور پڑھنے پڑھانے میں بالکل ٹھیک ٹھاک تھے ۔
ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا:
“بچپن میں ہم نے اپنے جسم کو گناہوں سے بچا کر رکھا ہے اور بڑھاپے میں اللہ تعالی نے ان اعضاء کو بیماریوں سے بچا کر رکھا ہوا ہے۔”
(البداية والنهاية 7/202)

محدث گوندلوی رحمہ اللہ کا واقعہ

مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ، حضرت العلام محدثِ عصر مولانا حافظ محمد صاحب گوندلوی رحمہ اللہ کے صحیح بخاری کا انداز تدریس ذکر کرتے ہوئے بعض ملفوظات کریمہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’باب حلاوۃ الإیمان‘‘ کے تحت گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
’’ایمان کی مٹھاس حقیقتاً و حساً بھی ہوتی ہے اور اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب سیئات سے نفرت اور حسنات پر رغبت ہو، اس سے روح میں تازگی اور لطافت پیدا ہو جاتی ہے اور مومنِ صادق کے دل میں اعمالِ صالحہ کی بنا پر ایک نور پیدا ہو جاتا ہے اور اسے سیئات کی بدبو اور حسنات کی خوشبو کا بھی بسا اوقات احساس ہونے لگتا ہے ’’ذلک فضل اللّٰه یؤتیہ من یشاء‘‘۔
اس سلسلے میں حضرت مرحوم نے متعدد دلائل ذکر فرمائے۔
من جملہ دلائل میں سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کا ذکر بھی فرمایا کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ سخت بدبو اٹھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس چیز کی بدبو آرہی ہے؟ یہ بدبو ان لوگوں کے منھ سے آرہی ہے جو مسلمانوں کی غیبت کر رہے ہیں۔‘‘
اس طرح حدیث ہے: ’’جب کوئی انسان جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ جھوٹ کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔‘‘۔
حضرت یہ تفصیل بیان فرما رہے تھے کہ راقم آثم نے جسارت کرتے ہوئے عرض کیا: ’’کیا حسی طور پر اب بھی اس کا احساس ہو سکتا ہے؟‘‘

تو آپ نے فرمایا: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی بسا اوقات اس کا احساس ہوتا تھا اور یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی عنایت اور کرم نوازی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے صحیح طور پر استوار کرے تو اس کا احساس ہو سکتا ہے۔‘‘۔

میں نے پھر عرض کیا: ’’کیا گناہ کی کیفیت اور نوعیت کے اعتبار سے بدبو کی کیفیت میں بھی فرق ہوتا ہے یا نہیں؟‘‘

آپ نے فرمایا: ’’ہاں، گناہ کی نوعیت کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے۔‘‘
اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: ’’زانی کے جسم سے ایسی بدبو آتی ہے جیسے حقہ پینے والے کے منہ سے آتی ہے۔‘‘۔

جس سے قارئین کرام ہمارے حضرت مرحوم کی روحانی قوت اور تعلق باللہ کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

(مقالات مولانا ارشاد الحق اثری جلد چہارم)

گناہوں کی وجہ سے رزق سے محرومی

حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«لَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ، وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيبُهُ»

(ابن ماجہ، كِتَابُ الْفِتَنِ،بَابُ الْعُقُوبَاتِ،4022حسن)
صرف نیکی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔ اور صرف دعا ہی تقدیر کو پلٹتی ہے۔ اور انسان (بعض اوقات) ایک گناہ کرتا ہے اور اس کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔

گناہ نعمتوں کو ایک ایک کرکے ختم کرتے جاتے ہیں

‏إمام إبن قيم رحمه الله نے فرماتے ہیں:

لا تَزال الذُّنوب تُزيل النِّعم نِعمةً نِعمةً
حتَّى تَسلب النِّعم كلَّها .

طريق الهجرتين ١/ ٢٧١
گناہ نعمتوں کو ایک ایک کرکے ختم کرتے جاتے ہیں
یہاں تک کہ ساری نعمتوں کو ختم کردیتے ہیں۔

گناہ گار آدمی گناہوں کا اثر کیوں نہیں محسوس کرتا

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

” فالذنب لا يخلو من عقوبة ألبتة، ولكن لجهل العبد لا يشعر بما فيه من العقوبة لأنه بمنزلة السكران و المخدر و النائم الذي لا يشعر بالألم “

الداء والدواء : ١١٦
گناہ کبھی بھی سزا سے خالی نہیں ہوتا لیکن بندہ جہالت کی وجہ سے اس میں سزا محسوس نہیں کرتا
کیونکہ وہ شرابی،نشہ میں دھت اور سوئے ہوئے شخص کی جگہ پر ہوتا ہے جو تکلیف محسوس نہیں کرتا

 

غزوہ احد میں ایک غلطی کا خمیازہ
ماہر تیر اندازوں کا ایک دستہ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر جو اسلامی لشکر کے کیمپ سے کوئی ڈیڑھ سو میٹر جنوب مشرق میں واقع ہے اور اب جبل رماۃ کے نام سے مشہور ہے ، تعینات فرمایا
آپﷺ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :

”ہماری پشت کی حفاظت کرنا۔ اگر دیکھو کہ ہم مارے جارہے ہیں تو ہماری مدد کو نہ آنا اور اگر دیکھوکہ ہم مال غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔”
”اگر تم لوگ دیکھو کہ ہمیں پرندے اچک رہے ہیں تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑ نا یہاں تک کہ میں بلابھیجوں ، اور اگر تم لوگ دیکھو کہ ہم نے قوم کو شکست دے دی ہے اور انہیں کچل دیا ہے تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں۔”

لیکن عین اس وقت جبکہ یہ مختصر سااسلامی لشکر اہل ِ مکہ کے خلاف تاریخ کے اوراق پر ایک اور شاندار فتح ثبت کر رہا تھا جو اپنی تابناکی میں جنگ ِ بدر کی فتح سے کسی طرح کم نہ تھی ، تیر اندازوں کی اکثریت نے ایک خوفناک غلطی کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ مسلمانوں کو شدید نقصانات کا سامنا کر نا پڑا۔ اور خود نبی کریمﷺ شہادت سے بال بال بچے ، اوراس کی وجہ سے مسلمانوں کی وہ ساکھ اور وہ ہیبت جاتی رہی جو جنگ ِ بدر کے نتیجے میں انہیں حاصل ہوئی تھی
(الرحیق المختوم)

ابلیس کا گناہ اور اس کا انجام

شیطان ابلیس جو کہ جنت میں رہ رہا تھا اور ہرطرح کی سہولیات سے فائدہ اٹھا رہا تھا، پھر اسے نہ صرف یہ کہ جنت سے نکال کر اس کی نعمتوں سے محروم کیا گیا بلکہ قیامت تک رجیم، لعین قرار پایا اس کا جرم یہ تھا اس نے حکم الٰہی کے سامنے اپنی انا کو پوجتے ہوئے ایک سجدے سے انکار کر دیا
لیکن تھوڑی دیر کے لیے ہمیں سوچنا ہے کہ آج ہم کتنے سجدوں کا عملی انکار کیئے بیٹھے ہیں تو پھر ہمارا انجام کیا ہوگا

آدم علیہ السلام کی غلطی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو اتنا نوازا کہ فرشتوں کو دیا

اسْجُدُوا لِآدَمَ

آدم کو سجدہ کرو

اور فرمایا:

يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا

اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور دونوں اس میں سے کھلا کھائو جہاں چاہو

لیکن ایک چیز سے منع کیا اور فرمایا:

وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ

اور تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم دونوں ظالموں سے ہو جاؤ گے۔

مگر آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی اور اس ممنوعہ درخت سے کھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے فورا سب پروٹوکول، سہولیات اور اعزاز واکرام واپس لیتے ہوئے فرمایا:

اهْبِطُوا

(جنت سے) اتر جاؤ

مگر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آج ہم کتنے ممنوعہ درخت استعمال کر رہے ہیں تو کیا پھر اللہ کا غضب کبھی بھی نازل نہیں ہوسکتا
دھوکے کا درخت
جھوٹ کا درخت
خیانت کا درخت
ظلم کا درخت
قتل کا درخت
حرام خوری کا درخت

مومن اور منافق کی نظروں میں گناہوں کی وقعت

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے اندازہ لگائیں کہ مومن گناہوں سے کس قدر خوف کھاتا ہے اور منافق کا حال کیسا رہتا ہے؟
آپ نے فرمایا:

«إِنَّ المُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ»

(بخاری ،كِتَابُ الدَّعَوَاتِ،بَابُ التَّوْبَةِ،6308)
مومن اپنے گناہوں کو ایسا محسوس کرتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں وہ اس کے اوپر نہ گرجائے اور بدکار اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح ہلکا سمجھتا ہے کہ وہ اس کے ناک کے پاس سے گزری اور اس نے اپنے ہاتھ سے یوں اس طرف اشارہ کیا

گناہوں کی وجہ سے سفید پتھر سیاہ ہوگیا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

نَزَلَ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنْ الْجَنَّةِ وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنْ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ

(ترمذی ،بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْحَجَرِ الأَسْوَدِ وَالرُّكْنِ وَالْمَقَامِ​877صحيح)
حجر اسود جنت سے اترا ، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا ، لیکن اسے بنی آدم کے گناہوں نے کالا کردیا

گناہوں کی وجہ سے گھونسلے میں پرندہ مرجاتا ہے

علامہ ابن القيم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بسااوقات لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے ایسی آفت آتی ہے کہ گھونسلے میں بیٹھے پرندے دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں
(معاشرے کی مہلک بیماریاں)

گناہ گار شخص سے زمین پر موجود ہر جاندار تنگ ہوتا ہے

ابو قتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةٍ، فَقَالَ: «مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا المُسْتَرِيحُ وَالمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟ قَالَ: «العَبْدُ المُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ، وَالعَبْدُ الفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ العِبَادُ وَالبِلاَدُ، وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ»

(بخاری، كِتَابُ الرِّقَاقِ، بَابُ سَكَرَاتِ المَوْتِ،6512)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” مستریح یامستراح “ ہے ۔ یعنی اسے آرام مل گیا ، یا اس سے آرام مل گیا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ” المستریح او المستراح منہ “ کا کیا مطلب ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پاجاتا ہے وہ مستریح ہے اورمستراح منہ وہ ہے کہ فاجر بندہ سے اللہ کے بندے ، شہر ، درخت اور چوپائے سب آرام پاجاتے ہیں۔

عمران محمدی