اِس دل پذیر زندگی کے کتنے ہی فروزاں لمحے اور روشن زاویے ہم نے مدھم کر چھوڑے، اپنی بے نام حسرتوں اور نامُراد خواہشوں کی تکمیل سے لذتیں کشید کرنا ہمارا معمول اور وتیرہ بن چکا ہے۔خشک اور بکھرے برگِ گلاب کی مانند ہم کتنے ہی مَحبّت آمیز رشتے اجاڑ چکے! اب تو حالت اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ ہم رُوٹھ جانے، منا لینے اور مان جانے کے پیمانوں سے بھی بہت دُور نکل کر ہر رشتے ناتے پر نفرتوں کا کلھاڑا تان کر بیٹھ گئے ہیں اور نفرتیں بھی ایسی کہ جب تک اعتدال کی ہر حد کو پاٹ نہ لیں، ہمارے مضطرب نفس کو کسی طور طرب ملتا ہی نہیں۔کتنے معاشرتی فسادات اور گھریلو تنازعات کو مل بیٹھ کر باہم مشاورت سے حل کیا جا سکتا ہے مگر ہم غایت درجے تک پہنچ کر بھی تعلقات کو از سرِ نَو بحال کرنے والی گلیوں اور راہوں کی طرف چہل قدمی کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔
دُوریوں اور جدائیوں کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے کہ پھر بدگمانی، خارِ مغیلاں کی مانند نوکیلی ہوتی چلی جاتی ہے۔روٹھنے کی ابتدا میں عام طور پر دونوں فریق ایک دوسرے کے منتظر رہتے ہیں کہ اگر وہ پہلے لَوٹ آیا تو مَیں اسے گلے لگا لوں گا مگر جب معاملہ دونوں طرف ہی یہ رنگ اختیار کر لے تو پھر بھلا رشتے ناتے کب بحال ہو پاتے ہیں؟ یہ ناراضی جب طوالت اختیار کر جائے تو پھر دلوں کے درمیان خلیج حائل ہونے لگتی ہے۔سو ابتدا میں ہی دونوں کو صلح کی طرف رجوع کر لینا چاہیے۔
رمضان ایک منفرد مہینا ہےاور روزہ ایک ایسی مخصوص عبادت ہے کہ جس کا علم، اللہ اور بندے کے سوا کسی کو نہیں ہوتا۔اس ماہِ مبارک میں جہنم کے دروازے بند کر کے شیطان کو پابندِ سلاسل کر دیا جاتا ہے۔اگر ہم اپنی بے مہار خواہشوں اور بے لگام اناؤں کو زنجیریں نہیں پہنا سکتے تو سمجھ لیجیے کہ رمضان کے فیوض و برکات اور انوار و تجلّیات سے ہم کوسوں دُور ہیں, پھر ہم روزے کے متعلق ایسے تنگ و تاریک دائرے اور گوشے میں مقیم ہیں جہاں اعلا و ارفع قسم کی سحریوں اور انواع و اقسام کی افطاریوں سے روزے کو مکمل کر لینے ہی کو رمضان کا مقصد سمجھ لیا جاتا ہے۔اگر ہمارے معاملات اور معمولات پر روزے کا کچھ فرق نہیں پڑتا تو پھر ہم نے روزے کی حقیقی روح کو سمجھا ہی نہیں۔روزہ صبر و تحمل اور قوتِ برداشت پیدا کرتا ہے، لیکن اگر یہ صفات اور ان سے ملحقہ تمام خصوصیات محض روزے کی حد تک رہیں اور زندگی کے دیگر امور میں ان کو شامل نہ کیا تو پھر روزے کے مقاصد کا عشرِ عشیر بھی حاصل نہیں ہوتا۔معذرت کے ساتھ پھر ہماری یہ ساری ریاضتیں، کسی رف عمل ہی کی مانند تو ہیں۔شاید میرے یہ الفاظ آپ کی حساس طبع پر گراں گزریں مگر یاد رکھیں جب دو مسلمان تین دنوں سے زیادہ ترکِ تعلقات کریں تو ان کے تمام اعمال ان کے سَروں سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتے۔جب یہ اعمال عنداللہ مقبول ہی نہیں تو پھر یہ اعمال رف ہی ہوئے ناں۔یہ حقیقت ہے کہ ترکِ تعلقات سے کبھی گزارا نہیں ہوتا، زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ہمیں اس شخص کی ضرورت پڑ سکتی ہے جس سے ہم نے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہوتی ہے۔
گرم ہوتے موسموں میں تمام روزے دار تشنگی کے باعث گلے کی خشکی اور لبوں کی بے حالی تو برداشت کر لیتے ہیں، آگ برساتے سورج تلے بھوک کے سبب جسمانی ضعف تو بہ رضا و رغبت سہ لیتے ہیں اور صبر و تحمّل کا اتنا مظاہرہ کرتے ہیں کہ مسلسل کپڑے ٹھنڈے پانی میں بھگو کر بار بار اپنے اوپر ڈالتے رہتے ہیں، گرمی اور پیاس کی شدت کو کم کرنے کے تمام جتن کر کے روزہ بہ ہر حال مکمل کرتے ہیں مگر بچھڑ جانے والے رشتوں کی طرف پلٹ کر دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے، حالاں کہ ایسا کرنے سے ان کا کچھ بگڑتا ہے نہ خرچ ہوتا ہے اور انھیں روزے جتنی قوتِ برداشت کا مظاہرہ بھی نہیں کرنا پڑتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود ساختہ انا کے جس عارضے میں مبتلا ہیں وہ بڑا ہی مہیب اور بھیانک ہے، جو ہمارے کردار اور افکار میں اعتذار کا کوئی احساس پیدا نہیں ہونے دیتا۔یہاں ذرا توقف کر کے چند لمحوں کے لیے اپنے اردگرد ماحول پر فقط ایک طائرانہ نظر ہی ڈال کر مشاہدہ کر لیں! کہ کتنے ہی لوگ تھے جو گذشتہ رمضان میں آپ کے ہم رکاب تھے، وہ بھی آپ کی طرح زندگی کی لذتوں سے آشنا تھے مگر آج آسودہ ء خاک ہیں، ان میں کچھ اناؤں کے گوہِ گراں بھی ہوں گے جو آج منوں مٹی کے ڈھیر تلے دفن کر دیے گئے، انسانوں کی اوقات ہی کیا ہے؟ ایک مشتِ خاک ہی تو ہے، تو پھر اکڑ کس بات کی؟ پھر پُھوں پھاں کا کیا مطلب؟
کیوں ناں اس ماہِ رمضان میں ہم اپنے اندر کچھ نیا پَن پیدا کر کے ایسی ترمیم کریں جو ہمارے خاندان، قبیلے اور مُلک و ملت کو تقسیم نہ ہونے دے، جو دلوں میں پڑی دراڑ میں الفت کا احساس گاڑ دے۔جب رمضان المبارک میں ہر نیکی کا اجر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے، جب روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے، جب روزہ بے لگام اور فحش کلام سے منع کرتا ہے، جب روزہ رحمتوں کی برکھا ہے اور مَحبّتوں کی بہار ہے تو پھر اس ماہِ مقدّس میں ہمارے اعزّہ و اقربا روٹھے کیوں رہیں؟ یاد رکھیں! یہ گنتی کے چند دن ہیں، کچھ ہی دنوں بعد یہ بہار آفریں مہینا لَوٹ جائے گا، اگر اس بار بھی اپنے پیاروں کو منانے میں ہم نے پہل نہ کی تو پھر بدگمانیاں، خوش گمانیوں میں کبھی بدل ہی نہیں پائیں گی، پھر وقت کا دھارا چیخ چیخ کر ناز خیالوی کا یہ شعر دہرائے گا۔
مَحبّت کی بہار آئی مگر خالی گئی آ کر
حصارِ بدگمانی سے نہ تم نکلے، نہ ہم نکلے