ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِين .
(سورۃ النحل﴿125﴾)

ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں محمد الطاہر ابن عاشور رحمہ اللہ لکھتے ہیں بلاشبہ ہر وہ بندہ جو مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے میدان میں اترے یا پھر انکے سیاسی معاملات کی بھاگ دوڑ سنبھالے، اس پر لازم ہے کہ وہ یہ تین راستے اختیار کرے۔
1.حکمت و دانائی
2.اچھی نصیحت
3. احسن انداز سے بحث و مباحثہ
اور اگر وہ ان راستوں کو اختیار نہیں کرتا تو وہ اسلامی آداب سے ہٹ جائے گا اور وہ امت کی سیاست کرنے کا حق دار نہیں رہے گا اور خدشہ ہے کہ وہ امت کی مصلحتوں کو تلف و ضائع کردے گا ۔
التحریر والتنویر لابن عاشور (334/1)
ہمیں بھی اس بات پر غور کرنا چائیے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں کتنے ہی ایسے افراد ہیں جنہوں نے امت کو راہ راست پر لانے کا علم بلند کیا ہوا ہے لیکن نہ حکمت،نہ دانائی،نہ اچھی نصیحت اور نہ ہی احسن انداز سے بحث کرنے کا طریقہ،انکے پیش نظر فقط اپنی شہرت اور کچھ مذموم مقاصد کا حصول ہے،اتحاد و اتفاق کے نام پر مزید افتراق کو ہوا دے رہے ہیں ۔

اور اسی طرح سیاست کرنے والے تو اس چیز سے کوسوں دور ہیں ، حکمت و دانائی اور احسن انداز سے بحث کرنا تو دور کی بات، ہمارے ہاں میدان سیاست تو سجتا ہی جھوٹ و الزام و جگت بازی سے ہے ،ایک سیاستدان سٹیج پر کھڑا ہے الزام،بہتان، جگتیں کررہا ہے سامنے ہزاروں کا مجمع واہ واہ کررہا ہے یہ ہے ہماری سیاست کا حال ۔۔! ،اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائے۔

طلحہ اعجاز علوی