روشنیوں کو بھلا کب زنجیر بپا کیا جا سکتا ہے؟ اجالوں کو تو بیڑیاں کبھی نہیں پہنائی جا سکتیں، آپ نور اور تجلیات پر جتنے بھی کوسنے ڈال لیں، ان کی تابناکی اور تابندگی میں رتی برابر فرق نہیں پڑتا۔مہر و ماہ کی طرف تھوکنے اور کیچڑ اچھالنے والوں کی حماقت اور جہالت پر بھلا کس کو شک ہو سکتا ہے؟ منحوس تیرہ شبی جتنے بھی پاپڑ بیل لے، اوباش اندھیرے اور آوارگی میں ڈھلی تاریکیاں جتنے بھی غول اور جتھے بنا کر آ جائیں، وہ روشنی کی محض ایک کرن کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔

اِس جہانِ رنگ و بُو میں سب زیادہ ضوفشاں کتاب قرآنِ ذی شان ہے۔یہ اللہ کا ذکر ہے اور اللہ ہی نے اِس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔دنیا کو تہذیب، تمدّن اور اخلاقیات کا درس دینے والے مغرب اور یورپ کے بدقماشوں کو جب بھی اپنے غلیظ ذہن میں گرانی محسوس ہوتی ہے، وہ قرآن کی تضحیک اور توہین کر کے اپنی بدترین رذالت کا ثبوت دیتے ہیں۔دنیا میں جتنی بھی مذہبی کتابیں ہیں، آج تک کسی مذہبی کتاب کی کوئی بے حرمتی نہیں کی گئی مگر قرآن کی توہین بار بار کی جاتی ہے، مسلم اُمّہ کے حوصلے اور ظرف بھی دیکھیے کہ قرآن مجید کی بے حرمتی کے ردّ عمل میں بھی کسی دیگر مذہبی کتاب کی بے حرمتی نہیں کرتے۔جنوری 2023 ء میں بھی اسی سویڈن میں قرآن پاک کو آگ لگائی گئی تھی۔

بی بی سی کے مطابق سویڈن، نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہونا چاہتا تھا اور نیٹو کا رکن ترکی اس کے خلاف تھا۔نیٹو کے ہر رکن مُلک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے مُلک کے اِس اتحاد میں شامل ہونے پر اعتراض کر سکتا ہے اور اسے شمولیت سے روک سکتا ہے۔روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سویڈن اور فن لینڈ نے نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دی تھی، جس کی مخالفت ترکی نے کی تھی، اسی وجہ سے سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں دائیں بازو کے کارکن، ترکی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔اس احتجاج کے دوران انتہائی دائیں بازو کی سٹرام کرس پارٹی کے راہ نما راسموس پالوڈان نے سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر قرآن مجید کے ایک نسخے کو آگ لگا دی تھی۔

اب پھر عین عید الاضحیٰ کے دن سویڈن کے دو دہشت گردوں میں سے ایک نے قرآن کے نسخے کو ٹھوکریں اور ٹھڈے مارے اور اسے پھاڑ کر مقدس اوراق کی بے حرمتی کرنے کے بعد ان اوراق کو نذرِ آتش کر دیا، اس دوران دوسرا شخص میگا فون پر مظاہرہ کرنے والے کی بات کا ترجمہ دہراتا رہا۔اس ملعون شخص کا نام ” سلوان مومیکا “ ہے، اس نے سی این این کو بتایا کہ وہ ایتھسٹ ہیں، یعنی وہ دونوں کسی مذہب کو نہیں مانتے۔سلوان مومیکا نے مزید بتایا کہ وہ یہ سب کچھ عدالت میں تین ماہ کی قانونی لڑائی کے بعد کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ قرآن پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔اگر وہ واقعی کسی مذہب کو نہیں مانتے تو اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کی کتاب کو نذرِ آتش کیوں نہیں کرتے؟ اگرچہ جنوری میں بھی قرآن کو نذرِ آتش کرنے والا شخص حکومتی جماعت ہی کا رکن تھا، لیکن اِس بار سویڈن میں عدالتی اجازت نامے کے بعد قرآن کی بے حرمتی کی گئی ہے، جو مغرب اور یورپ کے سینے میں دہکتی اسلام دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔عالَمِ کفر کی یہ اوچھی حرکات کبھی اسلام کی تابندگی کو کجلا اور دبا نہیں سکتیں۔صفی لکھنوی کا کہا گیا شعر ہے:
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی پھر ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

اپنے اپنے ممالک کو عشرت کدوں میں تبدیل کرنے کے باوجود، وہ لوگ قرآن کی تعلیمات سے خائف ہیں، اس لیے کہ قرآن عورتوں کو ان حقوق سے نوازتا ہے، جن میں خواتین کی عزت اور آبرو محفوظ رہتی ہے، قرآن عورت کو عشرت کدوں اور مے کدوں کی بجائے ، بیوی کی حیثیت سے گھر اور خاوند کے دل کی زینت بناتا ہے، قرآن میں خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے مگر وہ عیش کوش مرد ایسا ہر گز نہیں چاہتے سو وہ ہمہ وقت قرآن کی تعلیمات اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین سے سہمے رہتے ہیں۔

جب بھی کوئی شخص قرآن کی توہین کرتا ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ہمارے سینے دہک اٹھتے ہیں۔ہمارے قلوب و اذہان کلبلا جاتے ہیں، اس لیے کہ یہ ہمارے ایمان و ایقان کا تقاضا ہے، لیکن یہاں تھوڑا توقف کر کے ہم سب کو غور کرنے کی شدید ضرورت ہے۔مَیں ان تمام مسلمانوں سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں کہ جو توہینِ قرآن پر سیخ پا اور شعلہ زن ہیں کہ ہم ذرا خلوت نشیں ہو کر یہ سوچیں کہ ہم نے آج تک قرآن کے ساتھ کیا سلوک برتا ہے؟ قرآن پڑھنے،

سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے، یہ اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے ہمارے لیے بھیجا ہے، اگر آپ خفا نہ ہوں اور اگر آپ کی طبعِ نازک پر گراں بھی نہ گزرے تو ابھی ذرا چپکے اٹھیے! اور اپنے گھر کے طاقچے میں رکھے قرآنِ مجید کو اٹھا کر دیکھ لیجیے! اگر اس کے غلاف پر گَرد اور مٹّی کی تہ جمی ہوئی ہے تو آپ سویڈن کے خلاف احتجاج سے قبل قرآن کے ساتھ اپنی بے اعتنائی اور بے وفائی کے خلاف خود سے احتجاج کیجیے۔اگر آپ نے آج تک قرآنِ مقدس کا ترجمہ پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی تب بھی آپ کا قرآن کے ساتھ رویہ انتہائی نامناسب ہے۔قرآن کے ساتھ مَحبّتوں کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ترجمے سمیت اپنی زندگی کا معمول بنا لیجیے، بہ صورتِ دیگر تو آپ کی قرآن کے ساتھ مَحبّت بڑی پھیکی اور رُوکھی سی ہے۔ہم اپنے مُلک میں رہ کر سویڈن کے خلاف احتجاج کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے، مَیں سمجھتا ہوں کہ اس احتجاج سے بڑا احتجاج یہ ہے کہ ہم خود کو قرآن کے سانچے ڈھال لیں، یہی قرآن کے ساتھ حقیقی عقیدت کا تقاضا ہے۔ مولانا داؤد راز دہلوی رحمہ اللہ کی مناجات کے اشعار ہیں:
يا الٰہی! روز و شب توفيقِ احساں دے مجھے
خوف اپنا ظاہر و باطن ميں يكساں دے مجھے
حبّ سنّت يا الٰہی! حبّ قرآں دے مجھے
نعمتِ دارين اعنى نورِ ايماں دے مجھے

(انگارے۔۔۔حیات عبداللہ)