اسلام میں جب اجماع کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد پوری امت کے آزاد فقہاء، علماء اور محدثین کا اجماع ہوتا ہے۔ کسی آرگنائزیشن کسی لجنہ کسی فرقے یا کسی علاقے کا اجماع نہیں ہوتا۔ نہ اس قسم کے اجماع کوئی معتبر ہوتے ہوا کرتے ہیں۔ گویا اجماع اس دینی فہم کا نام ہے۔ جو پوری دنیا کے آزاد فکر لوگوں نے بغیر کسی طرح کی مجبوری کے اپنایا ہے۔ اور اجماع کی حتمیت کے لئے اسے ایک بہترین قرینہ بھی کہنا بے جا نہیں ہوگا۔
ہم سے پہلے عیسائیوں کے اجماع کی صورت حال بالکل الگ تھی۔ ان کا چرچ ایک طرح کی آگنائزیشن تھی اور وہیں سے فتوی رائج ہوا کرتا تھا۔ جیسے سینٹ پال کے زمانے میں رومیوں کو عیسائی بنانے میں ختنہ بڑی رکاوٹ بنا کھڑا تھا تو دس سال کی بحث کے بعد بالآخر عیسائی چرچ نے وقتی طور پر ختنہ نہ کروانے کی اجازت دے دی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں وہاں کی پوری تاریخ میں کوئی ختنہ کرواتا نظر نہیں آیا۔ ابتدائی فتوی پھر وہاں کی تہذیبی روایت میں شامل ہوگیا۔ کیوں کہ ابتداء کے لوگ ہی بعد والوں کے لئے پیشوا ہوا کرتے ہیں۔ میلوں ٹھیلوں میں جانے کی وقتی اجازت پھر تاوقتی ہو کر رہ گئی۔
اسی لئے ہم جدید دور کے مقابلے میں کسی بھی طرح سے اسلامی احکام کو موڈیفائی کرنے کی روایت کو قبول نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بنتے دیر نہیں لگتی۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اگر چاہتے تو منکرین زکات کو حالات کے پیش نظر وقتی طور پر قبول کر سکتے تھے۔ لیکن اگر وہاں ان کو قبول کر لیا جاتا تو پھر نماز روزہ حج زکات ہر چیز کا انکار ہو چکا ہوتا۔ لیکن صدیق اکبر کا عمل ہمیں آئندہ تمام زمانوں تک یہ بتانے کو کافی ہوگیا کہ پولیٹیکل مسائل میں تو فیصلے بدلنے ممکن ہوا کرتے لیکن لیکن اسلامی احکام میں کسی طرح کی چھوٹ دے کر پھر بعد میں انہیں بدل دینا ممکن نہیں ہوا کرتا۔ بینکنگ سسٹم ایک دفعہ اگر ہمارے معاشروں میں گھس گیا ہے تو اسے واپس لے جانے کے لئے آپ کو کئی صدیاں بھی ناکافی ہوجائیں گی۔ اگر آپ چند سالوں کے لئے سود کو جائز کردیں تو اگلی پوری نسلوں کو ایک فرقہ دے کر جائیں گے۔ جو سود کو جائز کہا کرے گا۔
اسلام کے پاس مگر اہل دین کی آزادی جو ہے۔ وہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ بالفرض اگر سیدنا ابوبکر تسلیم کر بھی لیتے منکرین زکات کو تو بھی تمام صحابہ کا قبول کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ ہمارے متاثرین مغرب غیر زبانوں میں نماز کی اجازت دینے کو پر تولتے رہتے ہیں کہ انہیں نماز کی سمجھ نہیں تو اپنی زبان میں ادا کر لیں۔ جب کہ ہماری پوری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی علاقے کے لوگوں کو نماز ان کی زبان میں پڑھنے کی اجازت دی گئی ہو۔ حالاں کہ ضرورت شدید تر موجود تھی۔ فارس جب فتح ہوا تو وہاں کے لوگ فارسی نہیں پڑھ سکتے۔ بعض فقہاء کا فتوی بھی مل گیا تھا کہ فارسی میں فاتحہ پڑھی جاسکتی ہے۔ مگر مجموعی روایت نے اس کو قبول کر کے نہیں دیا۔
کیوں کہ ہمارے آزاد منش فقہاء علماء کسی کے ہاتھوں بھی مجبور نہیں تھے۔ میمون کا واقعہ مشہور ہے کہ خلیفہ وقت ان کی مجلس میں آیا تو وہ اپنے کام میں لگے رہے دھیان ہی اس کی طرف نہیں کیا۔ لوگوں نے جب بتایا کہ خلیفہ تشریف لائے تھے تو فرمایا جان بوجھ کر اسے اگنور کیا ہے۔ تاکہ اسے پتہ لگے کہ دنیا میں ایسے لوگ ابھی پائے جاتے ہیں۔ جنہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
اسی آزادی فکر کا کرشمہ رہا ہے کہ اسلام کی تاریخ کو گدلانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود گدلایا نہیں جاسکا۔ اگر کچھ لوگ شاہوں کے ثناء خواں رہے بھی ہوں جب بھی اکثریت اس کشاکش سے دور علم کی خدمت میں مصروف رہی ہے۔ جنہیں کوئی لالچ زر کوئی خوف سلطان اور کوئی خواہش نفس علم کی خدمت سے روک نہیں سکی۔ بخاری بخارا سے لے کر مدینہ تک اور دنیا کے تمام مراکز ہائے علم تک اگر جاتے ہیں تو پیش نظر کسی بادشاہ سلامت کا انعام نہیں ہوتا۔ نہ انہیں بادشاہ بھیجا ہی کرتا ہے۔ بلکہ میں کبھی حضور کہا کرتا ہوں کہ ماں ہوگی۔ جس نے کشتی میں بٹھا کر بوسہ دیا ہوگا کہ جا میرے لال خدا کے حوالے۔ بقیع کو اندلس سے نکلتے وقت کچھ لوگوں نے کہا ہوگا کہ جان فدا! ایسا بھی کیا شوق سفر، کہ اپنا چہرہ ہی چھپا لے جاؤ گے۔ لیکن بقیع کے شوق سفر میں حائل نہیں ہوسکے ہوں گے۔ اندلس جیسی جنت سے نکل کر بغداد جیسی جہنم میں آکر فقیرانہ لباس پہن کر احمد طب حنبل کی شاگردی کرنے کے پیچھے کسی شاہ وقت کا مشن نہیں ہوگا۔ بلکہ اکیلا ہی رخت سفر باندھ کر طواف کوئے ملامت کو نکل گیا ہوگا۔
بات دور نکل گئی ہے۔ ہم عرض کر رہے تھے کہ اسلام کے محفوظ رہنے کا ایک ہی طریقہ رہا ہے۔ اور رہے گا۔ اس کے سواء کچھ نہیں۔ کہ اسلامی روایت سے باہر نہ نکلا جائے اور کسی بھی لمحے کے لئے کسی بھی اسلامی حکم پر کمپرومائز نہ کیا جائے۔

ابو الوفا محمد حماد اثری