آئی ایم ایف کی جانب سے گھنگھور گھٹائیں اور ساون رُتیں ویسے ہی نہیں آ جاتیں بلکہ ہمارے گلے میں غلامی کے پھندے کو مزید مضبوط کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ آئی ایف کی جانب سے امڈنے والی ” بہاریں “ چند مخصوص لوگوں کے لیے ہی سامانِ عیش و نشاط لے کر آتی ہیں، باقی 24 کروڑ عوام کی زندگیوں میں ایسے رَت جَگے اور جان کاہ روگ گھول جاتی ہیں کہ ان کا سانس لینا تک دوبھر ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے خواب اور حسرتیں واشنگٹن میں موجود بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے دفتر میں گروی رکھے ہیں، ہماری خواہشیں، ہمارے گھر، ہمارے چراغ اور ہماری روشنی تک سبھی کچھ تو ہم سے باری باری چھینا جا رہا۔تسلیم الٰہی زلفی نے کیا ہی عمدہ شعر کہا ہے!
خواب پہلے لے گیا پھر رَت جگا بھی لے گیا
جاتے جاتے وہ مرے گھر کا دِیا بھی لے گیا
ایک بار پھر پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین، قرض کے لیے تکنیکی سطح کے مذاکرات یعنی کڑی سے کڑی شرائط کے ایجاب قبول کا سلسلہ، دونوں جانب سے ماہرین معاشیات شروع کر چکے ہیں، اس تسلیم و رضا کی محفل میں ہم نے یہ پہلی شرط بہ رضا و رغبت مان لی ہے کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد 49 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کر دی جائے گی اور اس کے لیے پاکستانی احبابِ بست و کشاد نے ” حکمتِ عملی “ بھی ترتیب دے لی ہے۔ پاکستان کے ” دانا و بینا اور دیدہ ور منصوبہ سازوں “ نے مذاکرات کے دوران ٹیکس نیٹ میں شامل 10 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کی تفصیلات بھی آئی ایم ایف کے چرنوں میں ڈال دی ہیں، یہی نہیں بلکہ ہمارے ” ماہرینِ معاشیات نے “ کامل عزم و ہمم کے ساتھ آئی ایم ایف کو موجودہ مالی سال کا 9 ہزار 415 ارب روپے کا ٹیکس ہدف پورا کرنے کی یقین دہانی بھی کروا دی ہے، اس سلسلے میں آئی ایم ایف کے کانوں میں یہ رَس بھی گھول دیا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ میں 2 ہزار 748 ارب روپے ٹیکس جمع کیا جا چکا ہے، جب کہ باقی 6670 ارب روپے ٹیکس جون 2024 ء تک اکھٹا کرلیا جائے گا۔
اگرچہ آئی ایم ایف کو 1944 ء میں قائم کیا گیا تھا اور اس کے اغراض و مقاصد میں معاشی بحران میں الجھے ممالک کو مالی تعاون، ان کے اقتصادی استحکام اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تجارت اور دنیا بھر میں غربت کا خاتمہ شامل تھا، لیکن آج سب کچھ بدل چکا ہے، اگرچہ آئی ایم ایف کے ممبر ممالک کی تعداد 190 ہوچکی ہے لیکن آئی ایم ایف کا مقصد مالی امداد دے کر ان ممالک میں معاشی استحکام کرنا نہیں ہے، بلکہ ان ملکوں میں براہِ راست مداخلت کر کے ان کی ساری معیشت کو اپنے قبضے میں لے لینا ہے، یہی وجہ ہے کہ جس مُلک کو کہیں سے بھی قرض ملنے کی امید نہیں ہوتی، اسے آئی ایم ایف قرض دے دیتا ہے، ہمارے سیاسی بزرجمہر شاید یہ بھول بیٹھے ہیں کہ آئی ایم ایف کوئی امدادی یا خیراتی ادارہ ہر گز نہیں ہے، بلکہ قرض دینے کے لیے اتنی سخت شرائط عائد کرتا ہے کہ قرض لینے والے ممالک، سَر تا پا، آئی ایف کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔بہ ظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ادارے کی طرف سے ملنے والی رقم ہمیں مفت میں مل رہی ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے، یہ ادارہ قرض دے کر زیادہ سے زیادہ سود بھی وصول کرتا ہے، بعض اوقات تو قرضوں پر شرح سود ساڑھے 14 فی صد تک کر دی جاتی ہے۔
آئی ایم ایف ہمارے پٹرول کی قیمتوں کو متاثر کرتا ہے، یہ ہمارے گیس کی قیمتوں میں جب چاہے اضافہ کرنے کا حکم صادر کر دیتا ہے، ہماری بجلی بھی غلامی کی زنجیروں میں ایسی جکڑ دی گئی ہے کہ جب چاہے اس کی قیمتوں میں اضافے کا فرمان آئی ایف جاری کر دیتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو ہم منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتے وہ آئی ایم ایف کے سامنے بالکل اپاہج، معذور اور پولیو زدہ ہوتے ہیں۔ ایک ایٹمی طاقت کا وزیرِ اعظم بھی چند خاص لوگوں کی عیش و عشرت کم کرنے کی بجائے، آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنا ہی پسند کرتا ہے۔جب بھی آئی ایم ایف کے قرضے کی نئی قسط آتی ہے، اس سے ہمارے چند سیاست دانوں کے سوا باقی سارے عوام پر منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں، آج عوام لٹ رہے ہیں، چور، ڈاکو اور لٹیرے دندنا رہے ہیں، ہر دفتر میں ایک فرعون بیٹھا ہے جو عوام کا خون چوسنے کی ذمہ داری ادا کرنے پر مامور ہے۔آئی ایم ایف کی رقم سے چند لوگ گُل چھرے اڑا رہے ہیں جب کہ عام انسان مصائب کے بھنور میں پھنستا ہی چلا جا رہا ہے۔قتیل شفائی کے اشعار ہیں:-
لٹتے ہوئے عوام کے گھر بار دیکھ کر
اے شہرِ یار تیرا کلیجا نہ پھٹ گیا
چوروں کا احتساب نہ اب تک ہُوا قتیلؔ
جو ہاتھ بے قصور تھا وہ ہاتھ کٹ گیا
منہگائی میں اضافے کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کی غلامی ہے۔
آئی ایم ایف دراصل ایک سود خور ادارہ ہے،جس کے شکنجے میں ہم بُری طرح پھنس چکے ہیں، حالات و واقعات شاہد ہیں کہ جن ممالک کو آئی ایم ایف نے قرض دیا ہے ان میں سے کسی ایک مُلک کی معیشت بھی آج تک نہ سنبھل سکی اور نہ وہ ممالک اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکے، وہ سب کے سب آئی ایم ایف کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں۔یعنی آئی ایم ایف معاشی طور پر کم زور ممالک کو کبھی توانا بنانا نہیں چاہتا، بلکہ انھیں اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔
آج لوگ ہمہ وقت شکوہ سنج ہوتے ہیں کہ یہ حکمران کوئی وعدہ وفا نہیں کرتے، وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے غلام کبھی باوفا نہیں ہو سکتے، ان غلاموں کو عوام سے بے وفائی کرنی ہی پڑتی ہے، اس لیے کہ یہ ان کی مجبوری ہے، اس لیے بھی کہ ان کی ساری وفائیں آئی ایم ایف کے لیے ہیں۔داغ دہلوی نے کہا ہے:-
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغؔ بے وفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

( انگارے ۔۔۔حیات عبداللہ )