انسان ہمیشہ مثبت سوچ کا فطری طور پر سرچشمہ ہے جو ہمیشہ مثبت اور تعمیری سوچ رکھنا چاہتا ہے وہ پیدائشی طور پر ہی اندر سے سداد اور فطرت کا پروانہ ہوتا ہے لیکن بیرونی اثرات اور معاشرے کے حالات اسکی فطری ساخت کو بگاڑ دیتے ہیں۔
حکمت ہی انسان کی اصل حالت ہے.انسان اگر بیرونی اثرات سے اپنے آپ کو آلودہ نہ کرے تو ہر انسان اپنے اپنے انداز سے حکمت پر ہی ہوگا جو انسان کی فطرت ہے اور فطرت سلیمہ ہے۔
آج بھی جتنے لوگ شعور و حکمت میں آگے نظر آتے ہیں، ان میں کسی نہ کسی طرح لوگوں اور معاشرے سے ایک قسم کی ذہنی لاتعلقی ملتی ہے۔ ضروری نہیں کہ معاشرے سے لا تعلقی کا مطلب بالکل رہبانیت اختیار کرلی جائے! بلکہ لا تعلقی کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز میں بھیڑ چال نہیں ہوتی کہ انسان روایت کا اسیر بن جائے. بڑے ذہن ہمیشہ انفرادیت اور قلت میں ہی ہوتے ہیں انکے پاس ہمیشہ وہ چیزیں نہیں ہوتیں جو ایک کامن انسان کو میسر ہوتی ہیں چاہے وہ لوگ ہوں یا حالات ہوں..!
دوسرا اس سے تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے میرے فیورٹ سائنٹسٹ نکولا ٹیسلا کہتے ہیں:الگ رہنے اور تنہا رہنے بالخصوص کسی اضطراب و شور سے پاک تنہائی میں انسان کا ذھن تیز سے تیز تر ہوتا جاتا ہے.پوزیٹو سوچ اور آئیڈیاز کیلئے کسی بڑی تجربہ گاہ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ انسانی کی اصلی صلاحیت اُن بیرونی اثرات سے بچ کر تنہائی میں پروان چڑھتی ہے جو اثرات تخلیقی ذہن کو معذور کرنے کے لیے بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں فلھذا اکیلے رہو یہی ایجاد اور نئی چیزیں سوچنے کا راز ہے اکیلے رہو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔

عام لوگ ہمیشہ روایت کا اسیر ہوتا ہے وہ ہمیشہ ہواؤں کی لہروں کیساتھ اڑنا چاہتا ہے پانی کی لہروں کیساتھ ایک سمت بہنا چاہتا ہے لیکن یہ عموم ہے خصوص اس میں ہے کہ آپ ریورس چلنا سیکھیں اور جو آپکی بنیاد ہے اس پر ڈٹ جائیں اس چیز کی پرواہ کیے بغیر کہ ہواؤں کا رخ کس جانب ہے.
عام لوگ اپنے مفاد اور طبیعت میں عجلت پسندی کی وجہ سے ہمیشہ وہی فیصلے کرنا چاہتے ہیں جو انہیں اپنے مفاد میں زیادہ سھل لگتے ہیں حالانکہ یہ نفسیاتی کمزوریاں ہیں جو انہیں سست کرتی ہیں۔
تاریخ میں بھی بڑا دانش مند اس کو شمار کیا جاتا تھا جو دنیا سے کٹ کر جنگلات میں زندگی بسر کرتا تھا۔ اس کی ریاضتیں اس کو زندگی کے حقائق سے آشنا بناتی تھیں مگر یہ بھی ایک کمزوری ہے، زیادہ طاقتور اور قوی وہ ہے جو عین مجمع میں اسی بہاؤ میں رہ کر بھی اپنی اصل حالت کی حفاظت کرے۔
اگرچہ یہ سفر انتہائی کٹھن ہے، اسی لیے طاقت اسی میں ہے اور بہت کم لوگ ایسا کر پاتے ہیں گویا کہ یہ چیز منفرد بھی ہے.!
جس چیز کو آپ سمجھ لیتے ہیں آپ اسکو مسخر کرلیتے ہیں! جو چیز انسانی ذہن کو اسیر بنا کر رکھتی ہے، انسان جب خود کو بھی اور اس چیز کو بھی تدبر سے سمجھ لیتا ہے تو کم از کم پھر اس سے مغلوب نہیں ہوتا۔
چیزوں کو غور سے سمجھیں اتنا غور سے کہ آپ کو اپنے مسائل بھی دوسروں کے مسائل سے منفرد نظر آنا شروع ہوجائیں اور پھر اپنی نفسیاتی کمزوریوں کو منہ دیں انکو سمجھیں ان کو مغلوب کریں.چیزیں خود بخود اپنی شکل دکھانا شروع ہوجائیں گی اور اس طریقہ میں صرف چیزیں ہی نہیں بلکہ لوگوں کی نفسیات اور ترجیحات کی بھی سمجھ آنا شروع ہوجائیگی اور یہی طریقہ ہوتا ہے کہ جب انسان مغلوب نہیں ہوتا بلکہ آنے والی رکاوٹوں کو مغلوب کرتا ہے.
دوسری چیز اس طرح کرنے سے انسان کے اندر وقار اور بہادری آتی ہے کہ جب وہ اپنے ضمیر کو مکمل طور پر قوی پاتا ہے کیونکہ طاقت اور بہادری اپنے آپ سے وفاداری اور جھوٹ، دھوکہ اور مصنوعیت سے بیزاری کا نام ہے۔
جس کی طبیعت میں جھوٹ ہو، چاہے خود سے ہو یا دوسروں سے ہو، بزدلی اور طرح طرح کے خوف خود بخود آجاتے ہیں.جس کو دنیا طاقت سمجھتی ہے، اس میں تدبیر کا کردار بہت کم ہے اور حالات کا زیادہ ہے۔ مگر سچّائی اور اور خود شناسی جو اندرونی طاقت،بہادری اور وقار کو پیدا کرتی ہے، وہ انسان کے اپنے ہاتھ میں زیادہ ہے.انسان جیسے جیسے اس راہ کو اپناتا ہے اپنے اندر کی طاقت کا مزید احساس ہوتا رہتا ہے. وہ حالات کے ماتحت ہونے کے بجائے اندر ہی اندر اس احساسِ طاقت کی لذت سے سرشار ہوتا ہے۔
اسی لیے جو لوگ کردار میں گرے ہوئے اور تصنع میں لت پت ہوتے ہیں وہ ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کا خوف اپنے دل میں رکھتے ہیں جبکہ ایک با کردار اور اپنے آپ سے کئیے گئے وعدوں میں وفادار اور سچا انسان ہمیشہ زندہ دلی اور دلیری سے ہر کام سر انجام دیتا ہے جب وہ بات کرتا ہے تو اسکی باڈی لینگویج اسکی باتوں اور خیالات سے مکمل طور پر یکسو اور ہم آہنگ نظر آتی ہے. وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ اور ڈر کے بات کرتا ہے اور سیدھی بات منہ پر کرنے کی جسارت رکھتا ہے.گویا کہ جو خیالات اسکے دل و دماغ میں گردش کر رہے ہیں وہ انہیں بغیر کسی تصنع اور لگی لپٹی کے زبان دیتا ہے اور وہ الفاظ بن کر ظاہر ہورہے ہوتے ہیں۔

عمیر رمضان