کئی دن سے سوشل میڈیا پر یہ خبر چل رہی ہےکہ جاپان کے ایک شخص نے 15 ہزار ڈالر لگا کر خود کو کتا بنا لیا کہ اسے کتا بہت اچھا لگتا تھا ۔۔۔۔۔۔ فلاں فلاں ڈھمکاں
میں نے اس خبر کو بہت پھرولا لیکن دنیا کے کسی قابل بھروسہ و قابل اعتماد ذرائع سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہوئی ، گہری چھان پھٹک کے بعد یہ اکثر بے تکے سوشل میڈیا کی خبر نکلی یا ہر وقت بھنڈ بازی کرنے والے انڈین میڈیا کی جسے دنیا میں کوئی سنجیدہ یا قابل اعتبار نہیں سمجھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ سچ ہوتا تو یہ خبر سب سے پہلے بی بی سی پر ہوتی یا پھر خود جاپانی میڈیا اسے نشر کرتا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اس شخص کی کتا بننے سے پہلے بھی تو کوئی تصویر، کوئی نام کوئی اتہ پتہ ہوگا، آخر وہ سب کہاں ہے؟ وہ کوئی کیوں نہیں دکھاتا ۔۔۔۔۔۔ وہ ڈاکٹر کون ہیں ؟ ہسپتال کون سا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ
کیا اس الم غلم کہانی سے شہرت کا چکر چلانے والوں نے کسی پلاسٹک سرجری کے ماہر سے یہ پوچھا کہ کیا کوئی انسان پلاسٹک سرجری سے پورے کا پورے دوسرے جانور کی شکل اختیار بھی کر سکتا ہے کہ نہیں اور وہ بھی انتہائی کم، معمولی سی رقم چند ہزار ڈالر کے خرچ سے ۔۔۔۔۔۔ اتنے پیسوں سے تو جاپان کے کسی فائیو سٹار سیلون میں دو بندوں کا شاید مساج اور جسمانی صفائی بھی نہ ہوتی ہو ۔۔۔۔۔۔ ان کے کسی سیون سٹار ریستوران میں چار بندوں کے اچھے کھانے کا بل اس سے زائد بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔یہ سب بات یہیں سے سمجھ لیں کہ پاکستان میں صرف گردہ ٹرانسپلانٹ کی فیس اس سے زیادہ ہے اور گردہ ٹرانسپلانٹ کرنے سے پہلے جتنے لمبے چوڑے بے شمار ٹیسٹوں، دورانئے چیر پھاڑ اور پھر اس کی پہلے اور بعد احتیاط کے سلسلے سے گردہ لینے اور دینے والے دونوں کو گزرنا پڑتا ہے، اس سے بھی دونوں افراد کی خوب مت ماری جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور گردہ لینے والا پھر بھی اکثر کم ہی زندہ بچتا ہے ، جگر ٹرانسپلانٹ تو اس سے بھی کہیں زیادہ مہنگا اور تکلیف دہ ہے۔۔۔۔۔
آپ کو یاد ہو گا کہ امریکا سے کچھ عرصہ پہلے خبر آئی تھی کہ وہاں ایک شخص کو سور کا دل لگایا گیا اور یوں ساری دنیا میں ایک بھونچال آ گیا تھا کہ اب انسانوں کو سور کے دل لگائے جائیں گے۔اس پر ہر پہلو سے دنیا بھر میں خوب بحث ہوتی رہی۔ جانوروں کے حقوق والے کہنے لگے کہ ہم کسی جانور کا یوں ناجائز قتل نہیں ہونے دیں گے۔ بہت سے لوگ ڈانگیں لے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میدان میں آ گئے کہ تمھارے مذہب میں تو سور انتہائی نجس اور ناپاک و نفرت انگیز جانور ہے، بتاؤ اب کیا کرو گے؟

کچھ بے چارے علمائے کرام حالت اضطرار میں سور کا دل لگانے کو جائز کہنے پر بھی مجبور ہو گئے اور کچھ خاموش رہے جنہیں تضحیک کا نشانہ بنانے کی بھی کوشش ہوتی رہی۔ بعد میں پتہ چلا کہ جس شخص کے بارے میں یہ خبر تھی کہ اسے مبینہ طور پر سور کا دل لگانے کے بعد وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا اور وہ دو ماہ وہیں پڑا پڑا مر گیا، ایک بار آنکھیں تک نہ کھولیں اور پھر دوبارہ کسی کو سور کا دل لگانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔۔۔۔۔۔ ( اب یہ ساری کہانی بھی کہاں تک سچی تھی ہمیں اس کابھی پوری طرح علم نہیں کہ ہم کون سے وہاں موجود تھے کہ ہمارے سامنے انسان اور جانور دونوں کو کاٹا اور دل ڈالا اور لگایا گیا تھا ، سب میڈیا کی غیب کی خبریں تھیں اور ہم ماننے پر مجبور محض تھے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں )

میڈیکل سائنس کی محیر العقول ترقی سے انکار تھا نہ ہے نہ ہو سکتا ہے لیکن کچھ باتیں عقل سمجھ کے پیمانے پر بھی رکھنی چاہئیں ، میں نے جب انسان سے کتا بننے کی اس خبر کی اچھی طرح چھان پھٹک کی تو پتہ چلا کہ جن لوگوں نے یہ خبر جاری کی ہے ان میں سے ہر کوئی اس سارے کام کی فیس الگ الگ بتا رہا ہے اور یہ 12 ہزار سے شروع ہو کر 20 ہزار تک بیان کی جا رہی ہے ، یعنی یہ جعل ساز رقم پر بھی متفق نہیں تو پھر یکدم سب اس طرف کیوں بھاگ پڑے ۔۔۔۔۔۔ ؟آخر کوئی صاحبِ بصیرت و فراست شخص بھی ہم میں ہے کہ نہیں کہ ایسی لایعنی چیز کی تصدیق کرکے اسے پھیلاتا ۔۔۔۔۔ افسوس کہ ہم سب ایک ہی میدان کے دوڑنے والے گدھے گھوڑے ہیں کہ بس لائیک ملے اور ہم وائرل ہوں اور بس ،کہ جناب نے کیا ہی کمال کی خبر چھوڑی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب کا اللہ ہی حافظ.

علی عمران شاہین