نہیں ۔۔۔ نہیں ایسے وحشی القلب کو انسان کبھی نہیں کہا جا سکتا، ایسے سنگلاخ دل کو تو درندہ کہنا بھی جنگلی درندوں کی توہین کے مترادف ہے، اس لیے کہ خوں خوار درندوں کے دلوں میں بھی کم از کم اپنے بچوں کے لیے رحم اور مَحبّت کا جذبہ ضرور موجود ہوتا ہے۔بنّوں میں اپنے ہی چار بچوں کو قتل کرنے والے شقی القلب کو انسانیت کی فہرست یا قبیل میں کبھی شمار نہیں کیا جا سکتا۔مانا، وہ غربت کی چکّی کے دو پاٹوں میں پِس رہا ہو گا، تسلیم! کہ ٹائروں کو پنکچر لگا کر اس کا گزارا کرنا بھی محال ہو چکا ہو گا، شاید یہ بھی ممکن ہو کہ وہ ذہنی طور پر مضمحل اور بے قرار ہو چکا ہو مگر کلیم اللہ نامی خون آشام شخص کے ان مسائل کا حل یہ تو نہیں تھا کہ وہ اپنے ہی بچوں کو قتل کر کے خود کشی کر لے۔اس کے کوڑھی ہاتھوں نے یہ کیسے گوارا کر لیا کہ اپنے ہی معصوم بچوں کو ابدی نیند سُلا دے؟ خود مرنا چاہتا تھا تو مَر کھپ جاتا، ننّھے معصوم پھولوں کا کیا قصور تھا؟ چار بے خطا اور بے قصور لاشوں کی تصاویر دلوں کو لرزا دیتی ہیں کہ انھیں قتل کرتے وقت ایک باپ کے دل میں ذرا سا بھی ترحمانہ جذبہ کیوں نہ پیدا ہُوا؟۔انسان انسانیت سے گِر جائے تو حیوانیت میں حیوانوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے، آسی غازی پوری نے کہا تھا۔
چھری بھی تیز ظالم نے نہ کر لی
بڑا بے رحم ہے قاتل ہمارا
ایسے خوں چکاں واقعات کی فہرست طویل بھی ہے اور اندوہ ناک بھی۔حیدر آباد کے قریب سعید نظامانی میں بھی ایک شخص نے اپنے پانچ بچوں کو گلا گھونٹ کر مار ڈالا، ایک ماہ قبل جیکب آباد میں ایک باپ نے اپنے دو بیٹے قتل کر ڈالے، پانچ ماہ قبل شیخو پورہ میں علی عباس نامی شخص نے اپنے دو بیٹوں کو زہر دے کر مار ڈالا اور پھر خود کشی کر لی، ایسے گھناؤنی خوں ریزی کے بعد ان وحشیوں کے پاس خود کشی کے سوا کوئی چارہ ء کار بھی تو نہیں رہتا، ساحر لدھیانوی کا شعر ہے۔
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
اس نوع کے تقریبآ تمام جرائم کے عقب میں دو وجوہ ہی بیان کی جاتی ہیں، اوّل غربت اور دوم گھریلو پریشانیوں کے باعث نفسیاتی عوارض۔حیرت ہے کہ یہ کیسے سفاک گھریلو مسائل اور قزاق غربت کے آزار ہیں کہ اپنے ہی بچوں کے قتل جیسے جرائم کا ارتکاب کروا ڈالتے ہیں۔بچے اس کائنات کا حقیقی حُسن ہیں، کسی بھی أنگن کی زیبائی اور رعنائی بچوں کی شوخ و شنگ شرارتیں ہی تو ہوتی ہیں، ان کے لبوں کی مسکان ہزاروں غم بھلا دیتی ہے، عباس تابش کا شعر ہے۔
یہ زندگی کچھ بھی ہو مگر اپنے لیے تو
کچھ بھی نہیں بچوں کی شرارت کے علاوہ
آپ، سیرت اور احادیث کی کتب کا مطالعہ کر لیجیے، بچوں کے ساتھ مَحبّتوں کے رحمت مآب رنگ چھلکتے نظر أئیں گے۔بخاری اور مسلم میں حدیث ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا۔آپ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بیٹھے تھے، انھیں بڑی حیرت ہوئی، کہنے لگے ’’ میرے دس بیٹے ہیں، مَیں نے کسی کا بوسہ نہیں لیا ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا ’’ جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا “
بچوں کے ساتھ مَحبّت کا یہ انداز بھی چشمِ فلک نے دیکھا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی مجھے ایک ران پر بٹھا لیتے اور حَسن رضی اللہ عنہ کو دوسری ران پر، پھر دونوں کو چمٹا لیتے اور کہتے “ اے اللہ! ان دونوں پر رحم فرما، مَیں بھی ان دونوں پر رحم کرتا ہوں، اے اللہ! ان دونوں سے مَحبّت فرما، مَیں بھی ان دونوں سے مَحبّت رکھتا ہوں‘‘
مسند احمد میں ہے کہ کبھی کبھی نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹوں عبداللہ اور عبید اللہ کو صف میں کھڑا کر کے فرماتے کہ میری طرف دوڑ کر آؤ، جو پہلے آئے گا اسے یہ انعام ملے گا۔ بچے دوڑ کر آپ کی گود میں گر پڑتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کا بوسہ لیتے۔
آج جو شخص بھی مفلسی کے روگ سے عاجز آ چکا ہے، منہگائی کے مصائب نے جس کے بھی حواس مختل کر چھوڑے ہیں، وہ سب سورہ بنی اسرائیل کی آیت 31 کا یہ ترجمہ پڑھ لیں۔
” اور غربت کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں ۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے “
اپنی نا اہلی اور کاہلی کی سزا اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو دینے سے قبل یہ سوچ لیجیے کہ رب رحمان سب کا رازق ہے، وہ ساری مخلوق کا پالنہار ہے، سورہ الانعام کی آیت 151 بھی پڑھ لیں۔
” اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل نہ کرو، ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں “
معصوم بچوں کے قتل کے بھیانک جرائم کی شدت کو کبھی غربت کی آڑ فراہم کر کے، کم کر دیا جاتا ہے تو کبھی ذہنی پریشانیوں کے باعث نفسیاتی عوارض کی سہولت دے کر ان کے متعلق نرم گوشہ مہیا کر دیا جاتا ہے، کبھی بچوں کی لاشوں پر حکومت کو کوسنے دیے جاتے ہیں تو کبھی منہگائی کے عقب میں ان جرائم کی سنگینی کو چُھپا دیاجاتا ہے۔آج اسلام سے دُوری بلکہ نا آشنائی کا شاخسانہ ہے کہ کتنے ہی والدین اپنی اولاد کے بچپن کے گلاب لمحے، عذاب بنا رہے ہیں؟ وہ لڑکپن کے سہانے زمانے جن میں دل نشین سپنے أنکھوں میں جگمگاتے تھے، آج بہت سے والدین نے غارت کر ڈالے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ منہگائی کے نوکیلے عفریت نے عوام کو نڈھال اور نزار کر کے رکھ دیا ہے، لاریب غربت کی صعوبتیں مفلوک الحال لوگوں کے اعصاب نوچ رہی ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو بے دردی کے ساتھ ذبح کر دیا جائے، اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ انتہائی وحشی پَن کے ساتھ اپنی زیست کو بھی ختم کر لیا جائے، ایک انسان کا قتل، ساری انسانیت کے قتل کے برابر ہوتا ہے اور لہو ہمیشہ بولتا ہے، قتل چیخ چیخ کر قاتل کے ظلم اور سربریت کو عیاں کیا کرتا ہے، اقبال عظیم کا بہت عمدہ شعر ہے۔
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے