یونانی فلاسفہ کی کتب کے عربی تراجم نے سب سے پہلے اس فتنے کو جنم دیا جس کے بعد ایک خطرناک رجحان پیدا ہو گیا کہ کتاب و سنت کی نصوص پر ایمان لانا کافی ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے کتاب و سنت کی نصوص پر ایمان لانے کا لازمی جزو یہ ہے کہ “ان نصوص کی نبوی تشریحات و توضیحات پر بھی ایمان لایا جائے”
فتنہ روافض ہو یا خوارج یا معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ وغیرھا بے شمار فرقے صرف نبوی تشریحات و توضیحات کو نہ ماننے کی وجہ سے گمراہ ہوئے۔ عصر حاضر کی گمراہیوں پر غور کیا جائے تو یہاں بھی یہی بنیادی وجہ سامنے آئے گی۔ عصر حاضر میں آرٹیفیشل موٹی ویشنل مفکرین بھی کم و بیش اسی فتنے میں مبتلا ہو رہے ہیں بالخصوص وہ لوگ جنہوں نے دین کا باقاعدہ علم مدارس سے حاصل نہیں کیا۔ اور فتنہ در فتنہ کا ظہور اس وقت ہوا جب ایسے لوگوں کو بعض جماعتوں نے اپنا سٹیج دینا شروع کر دیا۔
ایسے ناموں کی فہرست تو طویل ہے لیکن سردست ایک صاحب مال سبیل اکرام صاحب جو فکری اعتبار سے یتیم افکار کے حامل ہیں۔ کچھ عرصہ سے کبھی سیاسی اور کبھی مذہبی در فطنیاں چھوڑتے رہتے ہیں ان کا تازہ ترین ارشاد جو فرمایا گیا ہے وہ مال و دولت کی مدح سرائی اور غربت کا استھزاء سے متعلق ہے۔
“المسلم القوي احب الى الله من المسلم الضعيف” کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالٰی کو فنانشلی طور پہ طاقتور مسلمان پسند ہے ناکہ باڈی بلڈنگ کرنے والا جسمانی طور پہ مضبوط مسلمان۔ اگر وہ صرف اتنا کہتے کہ اس طاقت سے مراد جسمانی طاقت کے علاوہ مالی طور پہ طاقتور ہونا بھی ہے تو کسی کو اختلاف نہ ہوتا کیونکہ طاقت کے کئی پہلو ہیں جسمانی مالی ایمانی تکنیکی وغیرہ، تو طاقت کے کسی پہلو کو بیان کرنے اور اسے ترجیح دینے کے لیے دیگر پہلوؤں کا انکار لازم نہیں۔
مزدید پڑھیں: اللہ تعالیٰ کو کون سا مومن پسند ہے
حالانکہ اسلام میں دولت یا غربت کو خیر یا شر کا منبع نہیں بنایا گیا۔ البتہ بعض عبادات کی ادائیگی کی بنیاد مال پر رکھی گئی ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہ تھا کہ احادیث کی تشریحات اپنے من مانے افکار کی روشنی میں کی جائے۔
ڈاکٹر شاہ فیض