ایک صاحب کی تحریر نظر نواز ہوئی، جس کا عنوان ہے ’اسلامی تاریخ میں ٹائم ٹریول‘ میں اگر بھول نہیں رہا تو یہ صاحب’ دین کا جنازہ‘ کے عنوان سے ایک تحریر رقم فرما چکے ہیں، جس کا چند سال پہلے راقم نے جنازہ نکالا تھا، لیکن پھر بعد میں انہیں شاید انہیں اس جنازے کو کندھا دینے کی بھی فرصت نہ مل پائی۔ جس طرح پہلی تحریر میں بے سروپا، اور متضاد باتیں تھیں، یہ تحریر بھی وہی خصوصیات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں، کسی صاحبِ علم کے لیے اس قسم کی تحریر کو پڑھ لینا ہی اس میں موجود علم وتحقیق آشکار کرنے کو کافی ہے، لیکن یہ فتنے پھیلتے ہی کیوں؟ اگر ان معاملات میں علم اور تحقیق شرط ہوتا، لہذا عوام میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو بلاعلم ان موضوعات پر لکھتے ہیں، اور عوام میں ایک کثیر طبقہ ایسا ہے، جو لاعلمی و معصومیت کی بنا پر ان ’جہالتوں‘ سے متاثر ہوتا ہے۔
اس تحریر میں صرف ایک خوبی نکالی جاسکتی ہے، کہ اس میں رواداری اور صبر اور حوصلہ کی تلقین ہے، کہ جس طرح پہلے ائمہ کرام آپس میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے، لیکن تکفیر و تفجیر ان کے ہاں نہ تھی، ہمیں بھی یہی اچھا رویہ اپنانا چاہیے۔ اس تحریر میں دوسری خوبی جسے شاید خود صاحبِ تحریر یا ان کے قارئین نوٹ نہیں کرسکے، وہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس میں تحقیق کی طرف دعوت دی گئی ہے، اور ائمہ کے رویہ کی طرف نشاندہی کی گئی ہے، کہ امام جعفر الصادق، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ یہ سب ایک دوسرے کے شاگرد یا ہمعصر تھے، آپس میں احترام کے تقاضوں کے باوجود انہوں نے مکھی پہ مکھی نہیں ماری، بلکہ کتاب وسنت کی روشنی میں جو حق سچ سمجھا، وہ اس پر عمل پیرا ہوئے ہیں۔
تحریر کو لکھنے والے صاحب تحریر میں اپنے منہج کی پاسداری نہیں کرسکے، اور یہ صرف صاحبِ تحریر ہی نہیں، بلکہ اس موضوع کو اس سطحی انداز سے دیکھنے والا کوئی ایک بندہ بھی اپنا مزعومہ تحقیقی معیار برقرار نہیں رکھ سکتا۔ چند باتوں اور تضادات کی طرف نشاندہی کرتا ہوں۔
1) تحریر کی ابتدا میں ہی صاحب قارئین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 80 سال بعد لے گئے ہیں، حالانکہ ان کے مزعومہ تحقیقی معیار کے مطابق حضور اور صحابہ کے دور میں جانے کا کوئی امکان سرے سے موجود ہی نہیں ہے، بھائی اگر آپ نے تاریخ اور احادیث پر ہی اعتماد کرنا ہے، تو روایت پسند علما اور محدثین سے آپ کو کیا اختلاف ہے؟ وہ بھی تو روایاتِ حدیث کی بنیاد پر عہدِ نبوت اور عہدِ صحابہ کا نقشہ کھینچ رہے ہوتے ہیں، لیکن آپ لوگوں کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ یا علم وتحقیق کے میدان میں یہ ثابت کریں کہ ہمارے اصول محدثین کے اصول سے بہتر ہیں، جو قیامت تک ممکن نہیں۔
2) حضرت فرمارہے ہیں کہ جس دور میں آپ کو میں لے گیا ہوں، وہاں آپ حدیث کو لکھنے کا تصور تک نہیں کرسکتے۔۔۔میں عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ کو اللہ کا خوف ہے تو ذرا لوگوں کو یہ تو بتائیں جہاں احادیث لکھنے کا تصور تک موجود نہیں تھا، وہاں آپ کو ’کتابت حدیث‘ کی ممانعت والی احادیث کہاں سے پہنچ گئی ہیں؟ ابو بکر صدیق وعمر فاروق رضی اللہ عنہما کے متعلق آپ نے لکھا کہ انہوں نے احادیث جلوا دی تھیں، تو پھر یہ حدیث آپ کو کیسے معلوم ہوگئی؟ اور پھر اگر آپ محدثین کے قدموں میں مطلب براری کو ہی نہ جاتے، تو آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ احادیث پایہ ثبوت کو پہنچتی ہی نہیں ہیں۔
یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ بھئی محدثین حدیث کی تحقیق کرتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟
ہمارے مطابق یہ ایک مغالطہ ہے، جو منکرین حدیث کو تحقیق کے نام پر لاحق ہوا ہے، حالانکہ اس میں تحقیق نا کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔
میں نے یہ بات ایک ویڈیو کی صورت میں بیان کی ہے، جسے یوٹیوب پر بعنوان’ انکار حدیث اور تحقیق حدیث میں فرق‘ دیکھا جاسکتا ہے۔

3) حق بات یہ ہے کہ جسے سب ائمہ و محدثین نے لکھا ہے، کہ قرآن اور حدیث کی کتابت آپس میں خلط ملط نہ ہوجائے، اس حوالے سے احتیاطی تدابیر تو سنت نبوی اور عملِ صحابہ سے ہمیں ملتی ہیں، بیانِ حدیث میں احتیاط کے کئی ایک نمونے ہمیں ملتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف کتابت حدیث کی اجازت دی، بلکہ اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا، بعد میں صحابہ کرام بھی اس طرزِ عمل پر گامزن رہے۔ اور کتبِ حدیث ان تمام واقعات سے بھری پڑی ہیں۔
اس حوالے سے میری ایک مختصر ویڈیو بھی ہے جسے یوٹیوب پر بعنوان ’احادیث کب لکھی گئیں؟‘ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

4) صاحبِ تحریر نے غلط صحیح استدلال کرکے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ فرقوں میں نہیں بٹنا چاہیے، ہم ان کی اس بات کی تائید کرتے ہیں، لیکن انہیں یاد دلاتے ہیں کہ جناب آپ بھی ذرا قرآن وسنت کو آنکھیں کھول کر مطالعہ کیا کریں، ورنہ فی الوقت آپ بھی قرآن وحدیث اور ائمہ اسلام سے مطلب براری کے جرم کے مرتکب ہو کر ایک خاص فرقے کے افراد میں اپنا نام لکھوا چکے ہیں، جس بدنام زمانہ فرقے کو لوگ ’منکرین حدیث‘ سے جانتے ہیں۔
5) یہ بات بالکل کذب و بہتان ہے کہ صحابہ کرام صرف قرآن کریم کو اسلام کا ماخذ مانتے تھے، حق یہ ہے کہ صحابہ کرام تو عمل پیرا ہوتے تھے، اس تفصیل کا آپ کو ان کے ہاں کوئی ثبوت نہ ملے گا کہ حضور آپ نے یہ بات قرآن سے ارشاد فرمائی یا پھر اپنی طرف سے ارشاد فرما رہے ہیں؟
ارشاد باری تعالی ہے: وما آتاكم الرسول فخذوه ومانهاكم عنه فانتهوا میں خود رب العالمین اس معاملے کو کلیئر کرچکے ہیں، ورنہ ’الرسول‘ کی جگہ ’القرآن‘ ہونا چاہیے تھا۔
6) صاحب نے ایک حدیث پیش کی ہے کہ جو قرآن سے مطابق ہو اسے لے ہو، اور جو اس کے مخالف ہو اسے چھوڑ دو، اور ساتھ کہہ رہے ہیں کہ عقل بھی استعمال کریں۔۔۔ میں آپ سے اور آپ کے قارئین سے پوچھتا ہوں کہ آپ نے یہ حدیث پیش کرتے ہوئے عقل استعمال کی ہے؟ آپ نے اس حدیث کو قرآن پر پیش کیا ہے؟ کیا قرآنِ کریم میں ایسی کوئی ایک آیت بھی ہے، جس میں حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کی تلقین ہو؟ جو محدثین کے اصولوں کو مانتاہو، ہم اسے بتائیں کہ یہ حدیث ثابت نہیں، لیکن آپ کو تو کم ازکم عقل استعمال کرتے ہوئے ہی، اسے خلافِ قرآن سمجھ کر رد کرنا چاہیے، کیونکہ ہم قرآنِ کریم کی آیت نقل کرچکے ہیں، کہ اس میں رسول کی ہر بات ماننے کا حکم ہے، اس میں قرآن اور غیر قرآن کی سرے سے کوئی تفریق ہے ہی نہیں۔
یہ سراسر پراپیگنڈہ ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف یا اس سے دوری کا سبب بنتی ہے۔ اس حوالے سے میری ایک ویڈیو ملاحظہ کی جاسکتی ہے جو کہ یوٹیوب پر بعنوان’ کیا احادیث قرآن سے دور کرتی ہیں؟‘ موجود ہے۔

میں ایسے احباب کو خلوص نیت سے دعوت غور وفکر دیتا ہوں، اور عرض کرتا ہوں کہ یوں مستشرقین کے دیے ہوئے اصولِ تحقیق کے مطابق اپنی زندگی ضائع نہ کریں، آئیں مسلمانوں کے علمی ورثے کو ان کے اصولِ تحقیق کی نظر سے دیکھیں، یہاں آپ کو تحقیق وتدقیق کے کئی ایک میدان مہیا ہوں گے، خلقِ خدا کا فائدہ بھی ہوگا، آخرت بھی سنورے گی، اور مسلمانوں نے جو شاندار اصول وفنون مرتب کیے ہیں، خود بھی ان سے لطف اٹھائیں گے، لیکن اس ٹائم ٹریول کی لذت و راحت کو محسوس کرنے کے لیے تجربہ شرط ہے، راہنمائی کی خاطر میں ’رواۃ الحدیث‘ کے متعلق اپنی ایک تحریر کا لنک پیش کیے دیتا ہوں:​
رواۃ الحدیث

اللہ تعالی ہم سب کو دینِ اسلام کی صحیح سمجھ بوجھ عطا فرمائے، اور قرآن وسنت کے خدمتگاروں میں شامل فرمائے۔​