جنگ صرف مال اور ہتھیاروں سے ہی نہیں لڑی جاتی بلکہ زبان کی جنگ بھی ہوتی ہے.اپنا نیریٹو بلڈ کرنا اور بیانیہ لوگوں تک پہچانا لوگوں کا اسے ماننا، بیانیہ کے ذریعے دشمن کے خلاف اپنی سوفٹ پاور بنانا یہ بھی جنگ کا موجودہ دور میں اہم حصہ ہے۔
موجودہ وقت میں کسی بھی مسئلہ پر بات کرنا بہت مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ موجودہ دور کا انسان بہت سینسیٹو ہے آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کی محض یہ “گفتگو” ہی اس وقت اس عالمی پریشر کا حصہ ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کی بات سے قائم ہوا ہے۔ سیاست داخلی ہو خواہ عالمی اس کا سب سے طاقتور ٹول “بات” ہی ہے۔
اسے مسائل کے حل کی پرامن راہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں ہتھیار کی زبان نہیں زبان کے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں۔ اب عالمی ایشوز پر پوری دنیا کی بات سنی جاتی ہے اور یہ مؤثر بھی ہوتی ہے۔ صرف آپ ہی نہیں نوم چومسکی جیسا مدبر اور دنیا کے کونے کونے سے لاتعداد دانشور، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور عام شہری فلسطین سے متعلق بات کر رہے ہیں۔ اور یہ بات کرنے والے بھولے لوگ نہیں ہیں یا عادت کے مجبور نہیں ہیں بلکہ اس سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔
ذرا سوچیں کہ سوشل میڈیا پر اس مسئلہ پر گفتگو کرنا کیوں بند کیا گیا؟ اس پر بین کیون لگایا گیا ہے؟ اگر یہ طریقہ موثر ہی نہیں تو پھر ایسا کیوں کیا گیا؟
اس وقت اسرائیل کو جو سب سے زیادہ ناکامی کا سامنا ہوا ہے وہ یہی ہے کہ زمین کے شرق سے لیکر غرب تک عام شہری اس حقیقت کو دل سے قبول کرنے لگ چکے ہیں کہ اسرائیل ایک غاصب اور ظالم ریاست ہے اور اسے برا جاننا شروع ہوگئے ہیں اور اس میں سیاسی مفاد یا ممالک کے سیاسی مقاصد کی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہودیوں اور مسلمانوں کے آپسی مسئلہ کی بات ہے کیونکہ یہ اب ہر انسان کا ایک نجی مسئلہ بن چکا ہے.لوگ اسے پرسنلی لے رہے ہیں اور جیسا کہ بتایا ہے کہ موجودہ دور کا انسان بہت سینسیٹو ہے۔
جو چیز معاشرے میں مجموعی لحاظ سے بری سمجھی جائے وہ برائی زیادہ دیر تک معاشرے میں قائم نہیں رہتی بھلے ہی اشرافیہ اسے نافذ کرنے کی جتنی مرضی کوشش کرلے!
یہی ایک بات ایلون مسک نے اپنے انٹرویو میں کی کہ اسرائیل کو سب سے زیادہ نقصان جو موجودہ جنگ میں پہنچا ہے وہ یہی ہے کہ دنیا اب اسرائیل کو بڑی سنجیدگی سے غاصب اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا مان رہی ہے۔
اسی رد عمل کی وجہ سے امریکہ کی پسپائی بھی ہوئی ہے امریکہ پہلے اپنے آپ کو ثالثی منواتا تھا اب ایسا نہیں ہے بلکہ وہ اس جنگ میں ایک حریف کی حیثیت سے رہ گیا ہے دنیا اب اسے ثالثی ماننے کو بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ ممالک بالخصوص عرب ممالک کھل کر چائنہ روس بلاک کی بات کرنے لگے ہیں جو امریکہ کیلئے درد سر ہے.امریکہ اور اسکے ہمنوا اب اس جنگ میں تنہا رہ چکے ہیں.یہ سب کچھ عالمی دباؤ سے ہی ہوا ہے۔ انڈیا پہلے اسرائیل کی حمایت میں کھل کر اترا لیکن اب اسکے رجحانات سیز فائر کی طرف کے ہیں یہ پچھلے ہی دنوں کی بات ہے۔ انڈیا بھی اس عالمی پریشر کو نہیں سہ پاسکا۔
اسرائیل ہوسکتا ہے یہ غزہ کی جنگ جیت جائے لیکن اسے اس جنگ میں جو عالمی تاثر ملا ہے اور نقصان ملا ہے وہ اس جیت کے فائدے سے کہیں زیادہ ہے جو اسرائیل کا سالوں پیچھا کرتا رہے گا۔ اسکا سب سے زیادہ اثر اسکی تجارت پر پڑے گا۔ اسرائیل کے عام لوگوں کو عالمی پریشر کا سامنا تو پہلے بھی بہت تھا جو اب مزید بڑھ جائیگا۔

عمیر رمضان