جدید الحاد کی بنیادیں گریک و رومن فلاسفی اور کیتھولک فلاسفی سے نکلی ہیں۔ روح کا جسم سے جدا ہونا، روح یا جسم کی اہمیت پر کھڑے کئے جانے والے سوالات، روح کی پارٹیشن وغیرہ کے پرانے مباحث ہیں جنہوں نے آگے چل کر پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
مسئلہ جبر و قدر اور اس کی کشاکش سراسر یونانی علوم سے نکلی ہے۔ تجسیمیت یا بالفاظ دگر اپنی میتھالوجی میں دیوتاوں کو انسانی شکل دینے کا رواج بھی اہل یونان کے ہاں وجود پذیر ہوا، یونانی داستانوں اور ڈراموں کا ہیرو دیوتاوں سے لڑائی کیا کرتا تھا۔ اور اس کے مر جانے کو ہی اس کی جیت تصور کیا جاتا تھا۔ یہی مباحث آگے چل کر انسان کے خدا ہونے کا خیال پیدا کرتے ہیں۔
حتمی دلیل کون سی ہوسکتی ہے؟ استقرائی یا استخراجی، یہ سوال یونانیوں کے ہاں ہی اٹھایا گیا۔ پھر انہیں یونانیوں نے مشاہداتی دلیل، جمالیاتی دلیل اور منطقی دلیل کا انکار کیا۔ بعض فلاسفہ نے استقرائی دلیل کا بھی انکار کیا، اور ان کے بعد پھر اگلی نسلوں کے کئی فلسفیوں نے استراجی دلیل کی حتمیت سے بھی سراسر انکار کر دیا۔ گویا ان کے نزدیک دنیامیں کچھ بھی حتمی نہیں ہے۔۔قطعی نہیں ہے۔ اسی سے تشکیکت نے جنم لیا۔ جانے خدا ہے یا نہیں ہے۔ ہو بھی سکتا ہے۔ نہیں بھی ہوسکتا۔۔خدا تمہارا انتخاب ہوسکتا ہے۔ خدا قطعی وجود نہیں ہوسکتا کہ جس پر شک کی گنجائش ہی نہ موجود ہو۔
اسی بحث نے عباسی زمانے میں جب مسلمانوں کی طرف رخ کیا تو کئی علوم کے خزانوں کو دیمک لگا گئی۔ آج کسی کو اتنا سمجھا دینا بھی مشکل نظر آتا ہے کہ کتب اصول میں ظنی و یقینی کی تمام بحثیں بعد میں لائی گئیں، اور ان کا تعلق کچھ بھی اسلامی روایت سے نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے علوم کو گدلانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شیخ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ بار بار کہتے رہ گئے کہ او بندگان خدا، قطعی الثبوت،ظنی الثبوت وغیرہ کی ابحاث سے باہر نکلیں۔ یہ ہماری پرانی روایت کاحصہ نہیں ہیں۔ مگر مجال ہے جو کوئی سن کر دے دے۔
موت کو درد قرار دے کر موت کے درد سے بچنے کے لئے خود کشی کو رواج دینے کا فیشن بھی رومن دور میں چلتا رہا۔
اس پوری تمہید سے صرف اتنا سمجھانا مقصود ہے کہ جو لوگ جدید فلاسفی جدید فلاسفی کی رٹ لگا ہمارے روایتی علوم پر آرے پھیرے جا رہے ہیں اور الٹا ہمیں سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کپر جدید کو سمجھنے کے لئے ماڈرن فلاسفی کو جاننا لازم ہے۔ پرانے مباحث کو یک لخت ترک کر دیا جائے. تو ایسے نادان دوستوں سے بچ کر رہنا ہی لازم ہے۔ جنہیں یہ تک نہیں معلوم کہ جدید فلسفہ ہو یا قدیم۔ جب تک اس کی تاریخ سامنے نہ ہوگی۔ اسے نہ تو سمجھ پانا ممکن ہے اور نہ لاگو کرنا۔
دوسرے یہ کہ جن یونانی علوم نے پورے یورپ کو بے خدا کیا ہے۔ ان سے اسلامی معاشروں کا بھی سابقہ پڑا تھا. وہ کیوں بے خدا نہیں ہوسکے. تو یہی وہ سوال ہے جو ہمیں پورے معرکہ روح و جسم کی کشاکش سمجھا سکتا ہے۔
اس سوال کا جواب ہمیں غزالی، ابن تیمیہ ابن قیم مولانا ثناء اللہ امرتسری یا مولانا قاسم نانوتوی کی کتابوں میں ملے گا۔ سب سے اہم غزالی اور ابن تیمیہ ہیں۔ بعد میں بڑے بڑے نام آئے۔ جو سب لکھنے ممکن نہیں۔
لہذا جن طلبائے مدارس کا خیال یہ ہے کہ وہ روایتی علوم میں مہارت کے بغیر الحاد کی درست تفہیم کر سکتا ہے۔ وہ اپنے خیال سے باز آجائیں اور جن کو لگتا ہیں کہ شاید علوم دینیہ اب کسی کام کے نہیں رہے۔ تو وہ جان لیں کہ روٹی شاید ان علوم سے تمہیں نہ ملے۔ لیکن علم یہی سے ملے گا۔
یاد رہے کہ یورپ میں کام کرنے والے بہت سے مبلغین شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کو اپنے مطالعہ میں لازمی رکھتے ہیں. ڈیوائن رئیلٹی کے مصنف نے کئی جگہ ابن تیمیہ کا حوالہ دیا ہے تو بلا وجہ نہیں دیا۔

ابو الوفا محمد حماد اثری