1) اسلام میں نیت کا دارومدار
نیت اور عمل میں ایک خاص تعلق ہے اور وہ یہ کہ کوئی بھی عمل حسن نیت کے بغیر قبولیت اور درجہ کمال کو نہیں پہنچتا..اگر ہم زندگی میں کسی اچھے اور نیک کام کی نیت کریں لیکن بعد ازاں کسی رکاوٹ کے باعث نہ کرنے کے باوجود بھی ہمیں اس نیک نیت کا اجر مل جائے گا۔ نیت خود ایک مطلوب عمل ہے..
یہ دل کا عمل ہے اور دل کے عمل کا درجہ جسمانی اعضاء کے اعمال سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

اذا هم عبدی بحسنه فلم يعملها کتبتها له حسنة فان عملها کتبتها له عشر حسنات

(صحيح مسلم، باب اذا هم العبد بحسنة، 1: 117، الرقم: 128)

یعنی اگر کوئی شخص کسی نیک کام کی نیت کر لے لیکن کسی مجبوری کے باعث نہ کرسکے تب بھی اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر وہ عمل کر لے تو پھر اس عمل کے کرنے پر دس گنا اجر لکھا جاتا ہے۔۔
جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ نیت کا درست ہونا نہایت ضروری ہے اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہونی چاہیے اگر ہو گی تو بڑی سے بڑی نیکی بھی رائگاں چلی جائے گی جیسا کہ قرآن پاک کے ایک مقام پر نماز پڑھنے والوں کی ہلاکت کا ذکر ہوا ہے یعنی یہ لوگ نماز پڑھتے ہیں مگر نماز میں نیت چونکہ دکھلاوا اور ریا کاری ہے لہذا وہ نماز بھی ان کے لئے دوزخ کے اذیت ناک عذاب کا باعث بن جاتی ہے۔۔۔پڑھی تو نماز ہے مگر نیت باطل ہونے اور اس میں ریا ہونے کی وجہ سے نماز نہ اس کے اجر کو ضائع ہونے سے روک سکی اور نہ اس کو دوزخ میں پھینکے جانے کو روک سکی۔۔۔ اس نماز نے اسے دوزخ سے نکال کر جنت میں لے جانا تھا لیکن نیت باطلہ نے پورا حال بدل دیا۔۔۔ پس نیت و عمل کے حوالے سے یہ قرآن مجید کا قاعدہ ہے کہ نیت ہر عمل کی قبولیت و مردودیت اور ثواب و عذاب کی کنجی ہے اس لیے نیت میں انتہا درجہ کا خلوص ہونا ضروری ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ بحیثیت عورت آپ نیکی کے کام بھی کریں ساتھ دنیا کو خوش رکھنے اور دنیاوی رسم ورواج کی لاج بھی رکھتی ہوں تو یہ امر نیت کے خلوص میں رکاوٹ ہے اسی لیے فقہاء نے نیت کی تین اقسام ذکر کی ہیں :
١) نیتِ صافیہ
٢) نیتِ ممتزجہ
٣) نیت کَدِرَہ

نیت صافیہ/نیت خالصہ
نیت صافیہ/ خالصہ سے مراد وہ نیت ہے جو صرف اللہ کی رضا اور اس کی لقاء کے لیے ہو یعنی عمل صرف اللہ کی رضا، اس سے ملاقات، اس کے حکم کی متابعت اور اس کی خوشنودی کے لیے کیا جائے۔
یعنی سوائے اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے کچھ مطلوب نہ ہو

نیت ممتزجہ
جس نیت میں ملاوٹ آ جائے، خلوص اور دنیوی حرص آپس میں خلط ملط ہوجائیں، اس کو نیت ممتزجہ کہتے ہیں

نیت کَدِرَہ
یہ نیت صافیہ کے بالمقابل دوسری انتہاء پر ہے۔ جو نیت ریاکاری، تکبر اور دنیا پرستی کے لیے ہو، اس کو نیت کدرہ کہتے ہیں۔ یعنی اس میں کامل کدورت اور میل کچیل آ جاتا ہے اور صفائی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ آدمی ظاہری نیک اعمال کرتا ہے مگر اس کا ارادہ و غرض دنیوی حرص و لالچ کے لیے ہوتا ہے..

اے بنت حوا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ کہنا کہ پردہ تو دل کا ہوتا ہے ،ہماری نیت صاف ہے اس میں فحاشی کا کوئی اینگل نہیں ہے،نہ ہمارا اس طرح کا بے ڈھنگا لباس پہننے کا مقصد یہ ہے کہ مردوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی جائے تو میں اتنا ہی کہوں گا کہ یہ سوچ ہی غیر اسلامی ہے لہذا نیت کے اندر اخلاص ہونا ضروری ہے وگرنہ اعمال دینی ہوں یا دنیوی دونوں کا ہمیں کوئی فایدہ نہیں ہے بلکہ وبال بن جاتے ہیں ۔۔

2) نسوانی شخصیت کا مقام ومرتبہ
اگر قدیمی تاریخ کا مطالعہ کروں تو یہ بات ملتی ہے کہ قدیم دور میں عورت کی حیثیت انتہائی درجہ کے استبداد سے دو چار تھی،اسے جسمانی طور پر مغلوب کرکے قبضے میں رکھا جاتا اور ذہنی طور پر اس سے بھی زیادہ ظلم روا رکھا جاتا تھا،خانگی معاملات میں اس کی حیثیت نوکروں سے صرف ایک درجہ بہتر تھی،اس کے اپنے بیٹے اس کے آقا ہوتے تھے جن کی فرمانبرداری اس پر لازم تھی اس کی ایک مثال یہ کہ
یونان انسانی تاریخ میں تہذیب و تمدن اور علم و فن کا سب سے قدیم گہوارہ مانا جاتاہے،لیکن تہذیب وثقافت اور علم و ادب کے اس مرکز میں عورت کو کوئی احترام حاصل نہ تھا ۔ یونانیوں کے نزدیک عورت ایک ادنی درجہ کی مخلوق تھی اور عزت واحترام کے لائق صرف مرد تھا‘ سقراط جو اس دور کا مشہور فلسفی تھا اس کا یہ خیال ہے
عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں وہ دفلی کا درخت ہے کہ بظاہر بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر چڑیا اُس کو کھا لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔۔
لیکن جب دین اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں تو یہ بات روز روشن کی طرح ہے کہ اسلام خواتین کے حق میں بڑا ہی نرم واقع ہوا ہے ان کے مزاج اور ان کی فطری کمزوریوں کو ملحوظ رکھاگیا ہے، قرآن وحدیث میں مختلف موقعوں پر مردوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ عورتوں کے معاملے میں عفوودرگزراور نرم خوئی سے کام لیں ان کی جذباتیت کوملحوظ رکھیں ان کے ساتھ گزربسر کے دوران ان کی حساس اورنفیس طبیعت کاخیال رکھیں ان سے اچھا سلوک کریں ان کے حق میںبہترین ثابت ہوں اگر وہ غلطیوں کی مرتکب بھی ہوں تو انہیں نرمی سے سمجھایا جائے سختی نہ برتی جائے۔
اسی طرح قرآن کریم میں مردوں کو عورتوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی نصیحت کی گئی ہے:
عورتوں کے ساتھ اچھا برتائو کرو اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں (تب بھی ان سے نباہ کرو) ہوسکتا ہے کہ جس کو تم ناپسند کرتے ہو اس میں اللہ تعالیٰ خیر کثیر فرما دے۔۔۔
اے بنت حوا آپکو اسلام نے اتنا مقام ومرتبہ دیا ہے،جہالت کے اندھیروں کو نکال کر روشنیوں کے سفر پر گامزن کیا،ظلم وستم کی وادیوں سے نکال کر عزت ومقام کی بلندیوں پر فائز کیا ہے،بحثیت ماں قدموں تلے جنت رکھ دی،بحثیت بیوی شوہر کی شہزادی بنا دیا،بحثیت بیٹی والدین کے لیے رحمت بنا دیا اور والدین کو یہ نوید سنائی کہ ان کی خدمت اور اچھی پرورش سے جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ملے گا،اتنے اہم رتبے اور مرتبہ پر فائز ہونے کے بعد آپکو مزید کس منزل کی تلاش ہے کہ جہاں آپکو پہنچنے کے لیے گھر کی فکر ہے نہ باپ کی پگڑی کا خیال ہے نہ بھائی کی غیرت کی فکر ہے ،نہ شوہر کی عزت ہی کا مان ہے ، اور ایسے کونسے حقوق کی تلاش ہے جو آپکو اسلام نے نہیں دیے ،ابھی وقت ہے اپنے مقام ومرتبہ کو پہنچان کر زندگی کا ہر لمحہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے گزاریں ،اپنی اس جدید نسوانی سوچ کو بدلیں جس میں بے حیائی کا عنصر نمایاں ہے ،جس میں عزت نفس مجروح ہوتی ہے ،جس میں اپ کسی کی گندی نظروں کا نشانہ بنتی ہیں،جس سوچ کی وجہ سے آپ آئے دن حراساگی کا شکار ہوتی ہیں ،یہ سب اسی سوچِ جدید کا نتیجہ ہے لہٰذا اپنی سوچ کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے،
آپکے بولنے سے حیا ٹپکتی ہو، آپکے لباس سے آپکی نیک نیتی اور اعلی تربیت یافتہ ہونے کا ثبوت ملتا ہو،اپکے گھریلو معاملات میں، رہن سہن سے اچھی بیٹی اور اچھی بہو ہونے کا پتا چلتا ہو،اگر یہ سب ہو گا تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں آپکے ہر معاملے میں اللہ خیر پیدا کر دے گا ان شاءاللہ اور ہمیں ہر وقت اللہ سے خیر ہی طلب کرنی چاہیے ۔۔

3) عورت کا لباس اور پردہ شریعت کے تناظر میں
بہت سے احکامات میں مرد وعورت مساوی ہیں جیسا کہ لباس مرد کو بھی پہننے کا حکم ہے اور عورت کو بھی یہی حکم ہے بس شرط یہ ہے کہ لباس دونوں کے لئے ساتر ہو وغیرہ وغیرہ لیکن ان احکام میں عورت کے لیے سب سے اہم پردے کا حکم ہے جو عورت کو دیا گیا ہے اور یہ اس کے لیے نہایت ضروری ہے۔۔
اس حکم کی رو سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کا سارا جسم قابلِ ستر ہے۔۔ یعنی غیر محرموں کے سامنے وہ ہاتھ سمیت جسم کا کوئی حصہ ننگا نہیں کرسکتی ما سوائے شوہر کی سامنے ۔۔۔۔
گویا اس کا لباس اس طرح کا ہونا چاہیے کہ اس حکم کے تقاضوں کو پورا کرے، اس اعتبار سے عورت کے لیے کچھ صورتیں بنتی ہیں،کچھ کا صورتوں کا تعلق گھر کے اندر سے ہے اور کچھ کا تعلق گھر کے باہر سے ہے،
گھر کی چار دیواری کے اندر ایک صورت تو یہ ہے کہ عورت مشترکہ خاندان (جوائنٹ فیملی سسٹم)میں رہتی ہے، جہاں اس کے دیور، جیٹھ اور ان کی جوان اولاد بھی ہوتی ہے۔ شرعی لحاظ سے چونکہ ایک عورت کو خاندان کے ان تمام افراد سے پردہ کرنے کا حکم ہے، ایسی صورت میں عورت ہر وقت بڑی چادر یا برقعے میں تو ملبوس نہیں رہ سکتی، کیونکہ گھر میں رہتے ہوئے اس نے سارے امورِ خانہ داری بھی انجام دینے ہوتے ہیں۔ اس لیے افرادِ خاندان سے پردے کی آسان صورت یہ ہے کہ اس کا لباس ان شرائط کے مطابق ہو:

١) اس لباس سے اس کے بازو ننگے نہ ہوں

٢) اور نہ اس کی چھاتی اور پاؤں ننگے ہوں

٣) اسی طرح اس کا سر بھی ننگا نہ ہو، بلکہ اس کے سر پر ایسا دوپٹا یا چھوٹی چادر ہو کہ دیور، جیٹھ وغیرہ کی موجودگی میں چہرے پر پلّو لٹکا کر اپنے چہرے کو چھپاسکے، ایسا باریک لباس نہ ہو جس سے اس کا جسم جھلکے اور اس کے حُسن کی نمائش ہو۔

٤) لباس ڈھیلا ڈھالا ہو اس طرح تنگ و چست نہ ہو جس سے اس کے سارے خدوخال نمایاں ہوں

٥) لباس زیادہ شوخ اور بھڑکیلا نہ ہو، جسے دیکھ کر کسی کے جذبات برانگیختہ ہوں۔

اس انداز کے لباس اور احتیاط سے مشترکہ خاندان میں پردے کے ضروری احکام پر عمل ہوجاتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے دیور، جیٹھ، بہنوئی وغیرہ سے پردہ کس طرح ممکن ہے؟
چنانچہ اس کو ناممکن یا مشکل سمجھتے ہوئے اکثر گھروں میں مذکورہ افراد سے پردہ نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ شریعت کے احکام ناممکن العمل نہیں۔
اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے: ’’اللہ کسی شخص کو اُس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت اور اس کا فضل و کرم ہے۔اگر خاندان کے ان مذکورہ افراد اور دیگر غیر محرموں سے پردہ کرنا ناممکن ہوتا تو اللہ تعالیٰ کبھی عورت کو ان سے پردہ کرنے کا حکم نہ دیتا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس حکم کا صدور ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس پر عمل کرنا ممکن ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی اصول، قانون اور ضابطے کی پابندی میں انسان کو یقینا کچھ نہ کچھ مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ پھر دین و دنیا کا کون سا ایسا کام ہے جس میں محنت و مشقت نہ ہو ؟ یقینا یہ بھی ایک مشقت طلب کام ہے، لیکن اللہ کی رضا کے لیے اس مشقت کو برداشت کرنا ہی تو شیوہ مسلمانی ہے اور اس مشقت ہی کی وجہ سے آخرت کا اجر و ثواب ہے اور انعام میں جنت ملے گی،ان شاء اللہ
لہٰذا ہر مسلمان عورت کو اپنے گھرانے میں مذکورہ لباس اور پردے کا اہتمام کرنا چاہیے، اسی میں دین و دنیا کی سعادت ہے
دوسری صورت گھر سے باہر جانے کی ہے تو اس کے شریعت کا یہ حکم ہے کہ سفر محرم کے ساتھ کرنا ہے اور دوسرا حکم یہ ہے کہ بنت حوا اپنے جسم کو مکمل ڈھانپ کر باہر نکلنا ہے کیونکہ عورت نام ہی پردہ کا ہے اسے دیکھنے کا حق بس اسے کے محرم کو ہے ، اللہ رب العزت نے مقدس زمانہ میں مقدس شخصیات یعنی ازواج مطہرات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کو مقدس افراد یعنی صحابہ سے پردہ کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پردہ کا حکم ہر دور میں تھا اور رہے گا لہذا آج بنات حوا کو سوچ بدلنے کی ضرورت ہے جس یہ سوچ اسلامی تعلیمات کی عکاسی کرنے لگے گی تب سے معاشرے کے بگاڑ ختم ہو جائیں گے ،خاندانی سسٹم بہتر سے بہترین ہو جائے گا ،عورت کی عزت ومقام وہی ہو گا جو نبوی دور میں تھا ،اولادیں نیک ہوں گی کیونکہ مائیں نیک ہوں گی ،جو آئے دن حراساگی کا شکار بنتی ہیں ان واقعات کی روک تھام کے لئے موثر ترین ثابت ہو گی ۔۔۔
بس آخر میں اتنا کہوں گا کہ اے بنت حوا خود کے مقام ومرتبہ کو پہچانیں اور خود کی زندگی جو ویسا ہی ڈیزائن کریں جس فطرت پر اللہ نے کو پیدا کیا ہے پھر اللہ کی رضا بھی ملے گی اور معاشرے میں مقام ومرتبہ بھی بحال ہو گا۔۔
سو حیا کا معیار وہ نہیں جو معاشرہ متعین کرے بلکہ حیا کا معیار و پیمانہ وہ ہے جو شریعت نے مقرر کردیا ہے جس میں عورت ایک بہت قیمتی نفس ِ انسانی ہے جو حیا کا پیکر بھی ہے اور نزاکت کا حسن بھی۔ جس کے ہر قدم کو اسلام نہایت باوقاربنا کر پیش کرتا ہے اور جس کی عفت و عزت اور خودی اسلام کی نظروں میں از حد مطلوب و محمود ہے۔ وہ عورت کے “چیز” ہونے کے سخت مخالف ہے بلکہ وہ اس کے ایک ایسے نفس ہونے کا قائل ہے جس کی خود اعتمادی اس طور کی ہونی چاہیئے کہ کوئی آدمی اس سے کلام کرتے ہوئے اس چیز کی توقع رکھے کہ اس کو جواب “للجاتی ہوئی آواز اور دلرُبا مسکراہٹ” کی شکل میں نہیں بلکہ ایک “کرخت آواز اور بااعتماد لہجے” کی صورت میں ملے گا کیونکہ نفسِ انسانی ہونے کے سبب وہ ہر لحاظ سے صنفِ مخالف کے برابر کا درجہ رکھتی ہے اور درجوں کا جو تفاوت الرجال قوامون علی النساء میں بیان کیا گیا ہے وہ عائلی زندگی کی بابت ہے جہاں اس کا راعی اس کی ضروریات کے لئے جوابدہ ہوتا ہے۔

کامران الہیٰ ظہیر