نیشنل ڈیز یا دیگر ڈیز کو اجتماعی طور پر منانے کو حب الوطنی یا انسانی کاوشوں اور شخصیات کو سراہنے کا جو طریقہ ہے یہ بھی ایک جدیدیت کا ہی شاخسانہ ہے۔
برتھ ڈے وغیرہ منانا یا کوئی بھی انفرادی سیلیبریشن پھر بھی نقصان دہ نہیں ہے جتنی ایک اجتماعی طور پر یا قومی سطح پر ایک خاص دن یا ایونٹ کو سیلیبریٹ کرنا اسلام کے من حیث الامت تشخص کیلئے نقصان دہ ہے!
اسلام کلی طور پر ان سب چیزوں سے مبرأ اور جانبدار ہے اور بطور ایک دین ان چیزوں کی شناعت کا بھی فاعل ہے.اسلام اپنی حیثیت میں اپنے ماننے والے کو مکمل طور پر دینی امتزاج سے آراستہ کرواتا ہے.!
نجی معاملات ہوں یا اجتماعی معاملات ہوں سب میں اسلام ایک انسان سے لیکر پوری ایک قوم پر مکمل طور پر روحانی اور عملی دونوں لحاظ سے غلبہ پانے والا ہے اور اسکا عملی طور پر اظھار بھی چاہتا ہے.
اس مسلمانیت کا کیا فائدہ؟ جس میں اسلامی کی جھلک ہی نہ نظر آئے چاہے یہ کسی فرد پر ہو یا پوری ایک قوم پر.!
نیشنل ڈے پر حب الوطنی کے نام سے آپ جھنڈیوں اور پینا فلیکسز کے ذریعے تو اسکا اظھار کرتے ہیں لیکن اسلام کے اظہار کو آپ آؤٹ آف ڈومین سمجھتے ہیں.اسلام ہر قوم اور ازم کو حتی کہ ایک ایک فرد کی شخصیت کو اپنے میں ضم کرنے اور اس کو مکمل طور پر اسلام میں داخل کروانے کا متقاضی ہے.
نیشنل ڈے وغیرہ کا تصور تو قومی ریاستوں سے آیا ہے جبکہ اسلام میں قومی ریاست کا کوئی مطلب ہی نہیں کیونکہ قوم میں نسل،رنگ یا تھذیب کی یکجائی کا ہی عنصر بنیادی طور پر ہوتا ہے اور اس سے ہی کسی قوم کی تحدید متعین ہوتی ہے جبکہ اسلام نے رنگ اور نسل کو ذرا برابر بھی اہمیت نہیں دی بلکہ اس کی شناعت بیان کی ہے رہی بات تھذیب کی تو وہ اسلام اپنے میں مکمل ایک تھذیب ہے.
اسی لئیے ہم کہتے ہیں کہ یہ جتنے بھی ازم ہیں یہ اپنی تمام تر اشتمالات و محویات سے ملکر بھی اسلام کا مجموعی لحاظ سے نہ فلسفیانہ اور نہ ہی پریکٹیکلی مقابلہ کرسکتے ہیں چہ جائیکہ کسی بھی ازم میں بڑے بڑے اذھان ہی کیوں نہ کار فرما ہوں.اس میں کتنے ہی فلاسفرز ہی کیوں نہ شامل رہے ہوں.
اور جب کوئی شخص انسانی کاوش کو تھذیب میں رنگ بھرنے اور اسکی اصلاحات و ترمیمات کے طور پر دیکھے گا تو وہ جان لے گا کہ اس میں کتنا نقص موجود ہے!
کیونکہ انسانی کاوش انسانی ہی ہے جسکی فطرت میں ہی نقص ہے بلکہ ایک فلسفہ کے مقابلے میں کتنے ہی فلسفے ایسے وجود میں آتے ہیں جو اسکی تردید کر رہے ہوتے ہیں. ایک ہی وقت میں رہنے میں والے دو اذھان ایک دوسرے کی قطعی طور پر تردید بھی کرتے نظر آتے ہیں اور ایک انسانی استدلال دوسرے استدلال سے کلی طور پر ٹکراتا نظر آتا ہے.
اسلام اپنے میں ایک مکمل تھذیب اور پریکٹیکل فلسفہ رکھتا ہے اور اسلام بطور دین اپنی دینونیت کو تمام انسانوں میں مکمل طور پر بھرنے کیلئے ہر حال میں اپنی حیثیت منوانے کا متقاضی ہے حتیٰ کہ ایک مسلمان اپنی روح اور دل میں اس احساس کو محسوس کرتا ہے اور یہی ‘ادخلوا فی السلم کافة’ کا معنی ہے.
قومیت ہو یا انسان کی اپنی انفرادی حیثیت ہو سب کو مٹاکر اسلام کو ہی اپنا قدوہ اور اصولی رہبر بنالیا جائے! اسلام اس چیز کا تقاضی من حیث الفرد اور من حیث القوم دونوں طور پر کرتا ہے جہاں تفصیلی بات نہیں ہے اسلام کی وہاں اجمالی اور اصولی بات ضرور موجود ہوتی ہے جسے ہم اسلام کی روح اور معنویت کہتے ہیں اور اسی کے طور پر اگر کوئی انسان اس چیز کو اسلامی تعلیمات کا ایک مکمل خاکہ ذھن نشین کر کے دیکھے تو وہ یکسر طور پر اس کا معترف ہوگا کہ واقعی اسلام اپنے میں ایک مکمل اصولی ضابطہ حیات ہے.
جب نبی علیہ کا یہ فرمان موجود ہے کہ ہر قوم کا اپنا تہوار ہوتا ہے جس میں وہ اجتماعی خوشی کو مل کر مناتے ہیں اور اھل اسلام کے دو تہوار ہیں.” یہ بات ہی قطعیت بیان کر دیتی ہے کہ مسلمان اپنی قومیاتی اور تھذیبی رسومات اور تہواروں کو بھلا کر صرف دو ہی تہوار منائیں.
صرف یہ کہنا کہ یہ تو عبادات کا معاملہ ہے جبکہ قومی تہواروں میں یا جتنے بھی ڈیز ہیں ان میں یہ چیز مقصود نہیں ہوتی’ یہ صرف ایک الوژن ہے. نبی علیہ السلام نے پہلے قومی تہواروں کا ذکر کیا اور پھر اسکے مقابلے میں اسلام کا تہوار ذکر کیا جو اس بات کا صریح طور پر متقاضی ہے کہ یہ عیدین ان دو تہواروں کے مقابلے میں ہیں اب اسکو اسلامی طریقے سے سیلیبریٹ کرنا ہے فلھذا اس کیلئے عبادات کو بھی اس میں منظم طریقے سے شامل کر لیا گیا.!
اب اس تہوار میں عبادات کو شامل کرنا کیا اس چیز کا متقاضی ہے کہ یہ تہوار صرف ایک عبادت ہے جسکا انسانوں کے دیگر نجی معاملات اور مشاغل میں کوئی دخل نہیں!؟
جبکہ اس وقت جاہلیت کا دور تھا سبھی مشرک تھے اور اپنے تہواروں کو دینی جذبات سے الگ کرکے مناتے تھے جنہیں ہم “ایونٹس” کہ سکتے ہیں جیسا کہ ہمارے ہاں بھی میلے لگا کرتے تھے جو صرف ایک انٹرٹینمنٹ کا سامان ہوتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ ان کیلئے خاص دن یا خاص مدت مقرر نہیں ہوتی جبکہ قومی تہواروں کیلئے ایک مکمل نظم اور تھذیبی چھلک نظر آتی ہے.نبی علیہ السلام نے انکی مذھبی بنیاد پر تردید نہیں کی کیونکہ وہ مذھبی تہوار تھے ہی نہیں بلکہ خالص قومی اور نجی مشاغل تھے تو پھر نبی علیہ السلام کو ایسا کرکے اسکے مقابل دو دینی تہوار دینے کی کیا ضرورت تھی؟
یہ سوال بھی بہت عجیب ہے کہ یہ ڈیز عید نہیں ہوتے تو انکا عید کے احکامات سے کیونکر تقابل کیا جائے؟ عربیت اور فقہی اصطلاحات سے واقف انسان بہت اچھی طرح اس کا ادراک رکھتا ہے کہ عید کسی بھی ہفتے،مہینے،سال یا خاص مدت کے بعد مسلسل بار بار آنے والے موقع کو کہا جاتا ہے جس میں لوگ منظم ہوکر اجتماعی طور پر خوشی مناتے ہیں. اسلام نے بھی اسی کو ایک اسلامی رنگ دیا اور دیگر رائج تہواروں سے روک دیا. اب کچھ دہائیوں سے قومی ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد یا مغرب کے بنائے گئے ڈیز متعارف ہونے کے بعد یہ دینی اصول کیسے بدل سکتا ہے؟
اسلام قومیت کو مٹانے کیلئے آیا ہے اور یہ نیشنل ڈے قومیت کو ہوا دینے والی چیز ہے. جزیرہ عرب میں ایک ہی زبان اور نسل کے حتیٰ کہ ایک ہی تھذیب کے لوگ سعودیہ عرب،شام اور عراق وغیرہ میں رہتے ہیں لیکن نیشنل ڈیز سب کے مختلف ہیں.صرف استعماری طاقتوں کی لگائی ہی لکیروں کی وجہ سے؟
یہی تو وہ تفرقہ ہے جو اسلام کے اجتماعی تصور اور کلیکٹو ازم کو ختم کر رہا ہے.
قومی ریاست ہو یا قومیت کی بناء پر بننے والے نظریات اور اصول ہوں سب کے سب اپنی حیثیت میں ایک خلط مبحث کا مظھر ہیں اور نہ تو یہ فلسفیانہ طور پر ٹھیک ہیں اور نہ ہی افادیت کے اعتبار سے چہ جائیکہ شرعاً انکی کوئی گنجائش ہو.!
عمیر رمضان