جب ہم جشن عید میلاد النبی کو بدعت کہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ عہد نبوی، عہد خلفائے راشدین اور قرون اولی میں اس کی نظیر نہیں ملتی تو جواب میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ عہد نبوی اور عہد خلفائے راشدین میں تقریب بخاری بھی تو نہیں ہوتی تھی سیرت النبی کانفرنسز اور مروجہ درس نظامی سسٹم بھی تو نہیں تھا۔

تو عرض ہے کہ یہ صرف خلط مبحث ہے جس کا نفسِ مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سادہ لفظوں میں اسے یوں کہہ لیں کہ یہ بحث کو الجھانے کا طریقہ کار ہے یوں اگر ہم جائز اور ناجائز کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکیں گے تو نقصان کر بیٹھیں گے۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے یہ بھائی کہتے ہیں کہ دیکھو جی دودھ حلال سمجھتے ہیں، چینی بھی حلال سمجھتے ہیں، کشمش بادام اور کھویا بھی حلال سمجھتے ہیں اور ان سب سے مل کر پکی ہوئی کھیر بھی حلال سمجھتے ہیں مگر جب اس کھیر پر قرآن پڑھ کر ختم دے دیا جائے تو پھر نہیں کھاتے توبہ توبہ یہ قرآن کے منکر ہیں
تھوڑی سی سمجھ رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ یہاں منکرِ قرآن والی کوئی بات نہیں بس طریقہ کار سے اختلاف ہے

مروجہ جشن اور تقاریب و کانفرنسز پر گفتگو سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام میں اصل جس چیز سے منع کیا گیا ہے اور جسے بدعت کہا گیا ہے وہ ہے کیا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ
بخاری و مسلم
جس نے ہمارے اس امر یعنی دین میں کوئی ایسی نئی چیز پیدا کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے اور ایک روایت میں أمرنا کی بجائے دیننا کے الفاظ بھی ہیں

وہ روایت یہ ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَحْدَثَ فِي دِينِنَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ»
جس نے ہمارے دین میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ باطل ومردود ہے
[شرح السنة للبغوي ,1/211 رقم الحديث: 103 وسنده صحيح، قال البغوي: هَذَا حَدِيثٌ مُتَّفَقٌ عَلَى صِحَّتِهِ.]

یہ روایت بدعت کی تعریف میں بہترین روایت ہے

معلوم ہوا کہ ہر نئی چیز بدعت اور ممنوع نہیں ہے صرف وہ نیا کام یا طریقہ جس سے اسلام میں اضافہ ہو اور اسلام کی اصل شکل تبدیل ہو کر نئی شکل سامنے آئے، بدعت کہلائے گا

اس بنیادی بات کو سمجھنے کے بعد اب ہم آتے ہیں جشن عید میلاد النبی اور تقاریب و کانفرنسز وغیرہ کی طرف

ہمارے بھائی یہ مغالطہ بہت دیتے ہیں کہ اگر قرون اولی میں جشن نہیں تھا تو تقریب وغیرہ بھی کہاں تھی۔تو عرض ہے کہ ان دونوں میں کئی ایک لحاظ سے فرق ہے۔

نمبر ایک:
تقریب، کانفرنس اور رائج مدارس سسٹم صرف تعلیم اور تبلیغ کے طریقہ کار کی ایک جدید شکل ہے کہ جس کی اصل، ثابت شدہ ہے کیونکہ عہد نبوی میں تعلیم و تبلیغ دونوں ہوتے تھے لھذا ان کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جو کسی شرعی حکم سے متصادم نہ ہو
جبکہ
ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن اہتمامِ خاص کے ساتھ خوشی اور جشن منانے کی اصل عہد نبوی میں سرے سے ملتی ہی نہیں تو جس چیز کی اصل ہی نہیں اس میں جدت کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے
تو کیا یہ اسلام کی نئی شکل اور بدعت نہیں ہے۔
اسے یوں سمجھیں کہ کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی کی موجودہ خوبصورت عمارتیں اگرچہ اُس شکل میں نہیں ہیں جو ان کی شکل عہد نبوی میں تھی مگر چونکہ ان کی اصل یعنی بنیاد، عہد نبوی میں تھی تو موجودہ جدید شکل کو کوئی بھی بدعت نہیں کہہ سکتا۔
لیکن
اگر کوئی شخص الگ کسی اور جگہ پر ان سے بھی خوبصورت مسجدیں تعمیر کرے اور کہے کہ یہ بھی کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی ہے تو کوئی بھی اسے قبول نہیں کرے گا کیونکہ ان کی اصل ہی ثابت نہیں ہے

نمبر دو:
شریعت میں تعلیم اور تبلیغ لازمی ہے ہر بندے پر اپنی بساط کے مطابق شرعی تعلیم حاصل کرنا اور تبلیغ کرنا ضروری ہے لیکن کوئی مخصوص طریقہ کار لازمی نہیں ہے کوئی جیسے بھی تعلیم و تبلیغ کرلے اسلام اس پر بحث نہیں کرتا اگر کوئی تقریب بخاری یا سیرت النبی کانفرنس یا درس نظامی کورس نہیں کرتا تو اسلام اس پر مروجہ طریقے نا اپنانے کی وجہ سے کوئی قدغن نہیں لگاتا ایک شخص بخاری شریف پڑھتا پڑھاتا ہے بھلے وہ پوری زندگی کسی ایک تقریب بخاری میں بھی شرکت نہ کرے کوئی بھی اسے بخاری کا گستاخ نہیں کہے گا ایسے ہی سیرت کانفرنس کا معاملہ ہے
جبکہ
جشن عید میلاد النبی کا معاملہ اس کے برعکس ہے ایک خاص طبقے کے ہاں جشن کا مروجہ طریقہ کار درجہ لزوم پر فائز ہو چکا ہے ان کے نزدیک اگر کوئی اس طرح سے جشن نہیں کرتا جیسے وہ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف حبِ نبی سے خارج کردیا جاتا ہے بلکہ گستاخ کا لیبل بھی اس کے ماتھے پر سجا دیا جاتا ہے چاہے وہ پورا سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن واحکام کا پابند ہو
تو کیا یہ اسلام کی نئی شکل اور بدعت نہیں ہے۔

نوٹ : ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھائی کہہ دے کہ ہم تو جشن نہ منانے والوں کو گستاخ نہیں کہتے مگر یہ ان کا وقتی ٹائم پاس، یا اس بھائی کا انفرادی موقف تو ہوسکتا ہے مگر یہ ان کے دل کی بات یا اجتماعی موقف نہیں ہے، کیونکہ انہی کے ہاں ایک مشہور شعر ہے جس میں جشن نہ منانے والوں کو ابلیس کہتے ہیں اور بڑی دھوم دھام سے وہ شعر پڑھتے ہیں۔
سوچئے بھلا سیرت کانفرنس یا تقریب بخاری میں شرکت نہ کرنے والے کو ہم نے کبھی ابلیس کہا ہے سمجھنے کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے۔

نمبر تین:
تقریب بخاری یا سیرت کانفرنس مقصود بالذات نہیں ہیں یہ صرف کسی اور کام کے سرانجام دینے کے ذرائع ہیں جیسے مسجد میں اے سی لگانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ نمازیوں کو سہولت دینا مقصود ہوتی ہے اور وہ سہولت اگر اے سی میں ہے تو اے سی لگایا جائے گا اور اگر ہیٹر میں ہے تو ہیٹر سلگایا جائے گا
جبکہ
جشن عید میلاد النبی مقصود بالذات بنا دیا گیا ہے ورنہ جو مروجہ جشن یا ٹشن نہیں کرتا وہ ہزار کہتا رہے کہ مجھے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشی ہے ہمارے یہ بھائی اس کی خوشی کو جشن کے بغیر سند دینے کو تیار ہی نہیں ہیں۔

نمبر چار:

تقریب و سیرت کانفرنس کسی متعین دن کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے اگر کسی مسجد میں کوئی سالانہ سیرت کانفرنس کسی متعین دن کے ساتھ خاص کربھی دی گئی ہے تو وہ فقط انتظامی حد تک ہے اس میں تغیر و تبدل کی گنجائش بہر حال رہتی ہے اور یہ گنجائش بھی رہتی ہے کہ اگر کسی سال یہ کانفرنس یا تقریب نہ بھی ہوسکی تو کوئی آسمان نہیں گرنے لگا
جبکہ
جشن عید میلاد النبی تو عیدین کی طرح ایک متعین دن کے ساتھ خاص کردیا گیا ہے نہ اس سے ایک دن پہلے ہوسکتا ہے نہ بعد اور ہرسال ہرصوت اس کا اہتمام لازمی ہے تو بھلا اس معین دن میں ایک معین عمل کا کوئی تصور عہد نبوی میں پیش کیا جا سکتا ہے
تو کیا یہ اسلام کی نئی شکل اور بدعت نہیں ہے؟

نمبر پانچ:

تقریب بخاری، سیرت کانفرنس یا مروجہ کلاس وائز تعلیمی سسٹم سے معاشرے میں اسلام کی کوئی نئی شکل سامنے نہیں آتی ورنہ بتایا جائے کہ تقریب بخاری وغیرہ سے اسلام کے کس حکم میں اضافہ و ترمیم نظر آ رہا ہے
جبکہ
جشن عید میلاد النبی کے تصور سے ہی نیا اسلام زہن میں ابھرتا ہے مثال کے طور پر اسلام میں سالانہ دو عیدوں کا تصور ہے جبکہ مروجہ جشن کی دھوم دھام نے نسل نو کے زہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ اسلام میں تین عیدیں ہیں
بتائیں اگر یہ اضافہ نہیں تو پھر اور اضافہ کیا ہوتا ہے؟

منہاج القرآن پبلک سکول سسٹم کے سلیبس میں باقاعدہ یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ اسلام میں تین عیدیں ہیں(یہ آج سے کوئی چھ سات سال پہلے کی بات ہے، کیا اب بھی ایسا کچھ لکھا ہے یا نہیں اس بابت مجھے علم نہیں)
اور مستزاد یہ کہ بعض شہروں میں باقاعدہ بڑی عید کی مانند قربانی اور نماز عید کے اہتمام کی خبریں بھی گردش کرتی رہتی ہیں
تو کیا یہ اسلام کی نئی شکل اور بدعت نہیں ہے۔

نمبر چھ

عید کا لفظ مذہبی اصطلاح ہے. رسول اللہ نے واضح طور پر جاہلیت کی عید کینسل کر کے اسلامی عیدیں مقرر کی ہیں۔
جبکہ
کانفرنس کا لفظ کوئی مذہبی اصطلاح نہیں. سائنس اور ٹیکنالوجی کی کانفرنسیں بھی ہوتی ہیں. بلکہ غیر مذہبی کانفرنسیں زیادہ ہوتی ہیں

لھذا ان بھائیوں سے گزارش ہے کہ تقریب بخاری یا سیرت کانفرنسز وغیرہ کو جشن عید میلاد النبی کے ساتھ خلط ملط کرتے ہوئے بحث کو الجھاؤ کی طرف نہ لے جائیں اور غور کریں کہ اس جدید جشنی جنون سے اسلام کی اصل شکل کیسے بگڑ رہی ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، جب کہ تم جانتے ہو۔
البقرة : 42

عمران محمدی