اے فلسطین، تیرا غم تو بہت بڑا ہے لیکن اس نے خیر و شر کے کیسے کیسے دفینے باہر نکال دیے ہیں۔ بڑے بڑے دعووں والی ریاستیں اور مشیخت پناہ مولوی حضرات، اور بہت عام سمجھے جانے والے بہت خاص لوگ، کون کس روپ میں سامنے آیا؟
ایران،رأس المنافقین۔ تُرکی،کوتاہ بینوں کا فلمی ارطغرل۔ عرب ریاستیں بشمول ابن سعود، دین کو دُنیا کے عوض بیچنے والے اور واحد اسلامی ایٹمی قوت، بصیرت توحید اور حمیت سے محروم۔
مسئلہ فلسطین شرعی طور پر دفاع حُرمت قدس و مسلمانانِ قدس پر دو رائے قبول نہیں کرتا۔ لیکن بھاگنے والوں کے پاس “خُفیہ دلیلیں” ہیں۔
“حما س ٹھیک نہیں”
تو پھر تُمہاری ذمہ داری تو دُگنی ہوگئی، فلسطینیوں کو حماس سے بھی نجات دلاؤ اور یہود سے بھی۔ یا لہو میں ڈوبے ہوئے شیرخوار بچوں کا منھج بھی ٹھیک نہیں؟
“پہلے عقیدہ مضبوط کریں”
ضرور کرو لیکن کیا مُسلمان کی جان ومال کی حفاظت عقیدے کی مضبوطی اور کمال سے مشروط ہے؟؟ کوئی ایک دلیل کتاب و سُنت سے، کہ کمزور ایمان والے کو یہودی درندوں کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا؟ اُن کا ایمان کمزور تھا، آزمائش آگئی، تمہارا منھج تو پکا ہے نا، “دولۃالتوحید” کا بھی، تم کیوں نہیں نکلتے؟ کیا (انفروا خفافا وثقالا) حکم قرانی نہیں؟
“وہاں سب بدمنھج تنظیمیں ہیں، ہم نہیں جانےوالے؟”
کیا وہ کافر ہیں؟ “یہ تو ہم نہیں کہتے”۔ سب منافق ہیں؟ “ہوسکتے ہیں”۔ چلو مان لیتے ہیں تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے “بطانۃ” بنائے بغیر ہمیشہ منصوص منافقین کو مشرکین اور یہود کے خلاف جہاد میں ساتھ نہیں رکھا؟
“کئی گروہ ہیں، ایک جماعت ہونی چاہیے”
کئی جماعتیں بھی قرآن سے ثابت ہیں(فانفروا ثبات أو انفروا جميعًا )، بلکہ علماء نے لکھا کہ بسا اوقات جہاد میں اس طرح کا تعدد جماعات دُشمن پر رُعب طاری کردیتا ہے۔
“وہ وطن پرست جماعتیں ہیں ہم کیسے ساتھ چلیں؟”
مشترکہ دفاع کے لیے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود اور منافقین کو مدینۃ الرسول اور غزوات میں شامل نہین فرمایا؟جبکہ ان گروہوں کی نیت یقینا فی سبیل اللہ کی نہیں تھی؟ کیا شرعًا مسلمان اپنی جان بچانے کے لیے کافر یا بدعتی مسلمان کی مدد نہیں لے سکتا؟؟ بلکہ یہ تو حُکم منصوص ہے(فاستعن من حولك من المسلمين )۔
“بہرحال فلسطینی وطن کی جنگ لڑرہے ہیں اسلام کی نہیں”، کیا سب ایسے ہیں؟ “سب تو نہیں”، او بے وقوف اگر سب بھی ہوں تب بھی ان کی جان مال آبرو کا تحفظ ضروری ہے، اس لیے کہ قتال دفاعی میں “فی سبیل اللہ” کی شرط مدد کرنے والے کے لیے ہے اُن کے لیے نہیں”۔ کوئی گن  ہگار یا بدعتی مسلمان اگر ڈاکو سے حُرمت کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے تو بھی بشارت نبوی(فانت شہید) کا مستحق ہے۔

“وہاں سب کُچھ ہی غلط ہے ہم نہ جاویں گے”

تو بھئی تم منھج حق والے جاکر ٹھیک کردینا، بھاڑ میں جائیں سب، تم اخوانیوں اور رافضیوں سمیت سب بدعتیوں کو چھوڑو، اللہ کا واسطہ ہے مسلمانوں کا قتل عام روکو، چالیس مُلکوں کی منھج سلیم والی اتحادی قوت کے ساتھ جاؤ، اللہ نے ایک عظیم موقع دیا ، فرض عظیم بھی ادا کرو ار منھج جہا د سمیت کلمہ توحید کا القدس میں احیاء بھی، وہاں کے لوگ تمہارے منتظر ہیں، دہائیاں دے رہے ہیں، اس سے اچھا موقع کیا ہوگا کلمہ کُفا ر کو باذن اللہ پست کرکے ان کے دل جیتنے اور انہیں دین حق سکھانے اور نافذ کرنے کا؟

“آپ کو بس سعودی پر تنقید کرنی آتی ہے، حالانکہ وہ دوسروں سے بہتر ہے”

یہ دین کا اصول نہیں کہ “دوسروں سے بہتری” دیکھ کر عظیم ترین مُنکرات پر خاموشی اختیار کرلی جائے۔ ہمیں سعودیہ سے محبت دین کی وجہ سے ہے جو اللہ سبحانہ وتعالی کی رحمت کے بعد شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کے منھج سے جُڑے ہوئے علماء اور اور اُنکی توحید خالص پر مبنی عوام اور حکمرانوں کی تربیت کی مرہون منت ہے۔ وُہی شیخ الاسلام کہ جن کا ذکر موجودہ بادشاہ سعودی تاریخ سے بھی تقریبًا نکال چُکا ہے۔ مملکت کو فسق و فواحش میں غرق کرنا چاہتا ہے۔ دین اسلام کی بجائے “دین انسانیت” کی ترویج کررہا ہے، اور فلطین پر ترک جہاد کرچُکا ہے، کیا ان جرائم پر سعودی محبت کو ترجیح دینا دین ہے؟ کس مصلحت دینی کو تُم نے ترویج انسانی دین اور ترک نصرت فلسطین کی مفسدت پر غالب کیا؟ وہ مصلحت مع دلیل شرعی سامنے تو لاؤ، مجرد جذبات، ادھر اُدھر کی کتابوں کے نام اور چرب زبانی نہیں۔ کیا ھیبت سُلطان ھیبت دین پر مُقدم ہے؟

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افضل ترین مقام کعبۃ اللہ کو نہیں چھوڑا توحید کے لیے؟ تم ریاض کے گیت گاتے ہو؟ کیا اس لیے یہ سال تُم نے دینی علم میں صرف کیے کہ بادشاہ سلامت کا ناجائز دفاع کرسکو؟ دینی امانت کا دفاع کون کرے گا؟ وہ مقدم نہیں؟ صحابہ کرام تو غیرت ایمانی کی بنا پر اس سے کہیں کمتر اور نفاق کی ظاہری علامت پر بدری اور عظیم صحابہ کو رسول اللہ کے سامنے منافق کہ دیتے، (دعنی اضرب عنق ھذا المنافق)،(انک منافق تجادل عن المنافقین)۔ پھر حاکم اور اس کے چند درباری مولویوں پر تنقید ہر گز وہاں کے اکثر علمائے حق اور ہنوز دُنیا کے صالح ترین معاشرے پر تنقید نہیں جیسا کہ تم ہمارے بارے میں دھوکہ دیتے ہو۔ حاکم کے کف ر و فسق سے رعایا کا کُف ر و فسق لازم ہونا خوارج کا عقیدہ ہے۔ اسی طرح حاکم کا ایمان رعایا کے ایمان کو مستلزم نہیں جیسا کہ نجاشی شاہ حبشہ کی مثال ہے۔
“عرب ریاستیں کمزور ہیں، اسرائیل طاقتور، عیسی علیہ السلام بھی یاجوج ماجوج کے مقابلے سے بھاگ کر کوہ طور پر چلے جائیں گے، تو کیا ان کا ایمان عیسی علیہ الصلاۃ والسلام سے بڑھ کر ہے؟”،
یہ دلیل تو واقی بہت قوی ہے!، میرا خیال تھا کہ یہ کسی عامی ذہن کی اختراع ہے۔ لیکن تعجب تب ہوا جب کسی دوست نے مُجھے مدخلی برانڈ انڈین اور دیسی مدنیوں کے پیج پر مینشن کردیا اور میں نے دیکھا کہ اس حجت حدیدیہ سے دھڑادھڑ سب مدخلی مولوی اور شیوخ استفادہ کررہے ہیں اور نصرت فلسطین سے بیٹھ رہنے کا شرعی جواز مہیا کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ اتنی واہی بات ہے کہ جواب دینے کو بھی جی نہیں تھا۔ فی الحال میں قارئین کرام پر چھوڑتا ہوں کہ کمنٹس میں وہ اس برھان قوی پر تبصرہ کریں۔

ضیاءاللہ برنی