یہ مُلکوں کی نہیں مناھج کی جنگ ہے
ایم بی ایس کی امارت میں اللہ رب العزت کا استھزاء

تحریر مکمل پڑھیے تاکہ مذکورہ بالا تینوں نکات آپس کا ربط سمجھ میں آئے اور مدخلیت کی حقیقت عیاں ہوجائے۔

ظاہری نظر یہ ہے کہ سانحہ قدس میں صرف عسکری قوت اور عملی تقصیر کی بُنیاد پر تنقید کی جائے، “پاکستان ایٹمی قوت ہے اس لیے سعودیہ سے بڑا مُجرم ہے”، تو اس قسم کے جملے صورتحال کو دیکھنے کی صرف ایک جہت ہے۔ پہلی بات یہ کہ کوئی مُلک حاکم کے نظریہ اور نظام کے تحت ہونے کے باوجود کُلی طور پر حاکم کے خیر و شر کا عکس نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ اس بنا پر ھجرت نہیں کی تھی ارض مدینہ مکہ سے افضل ہے، بلکہ اس بنا پر کہ مدینہ اپنے اھل (انصار) کے اعتبار سے مکہ(مشرکین) سے افضل تھا چنانچہ آپ علیہ السلام نے پھر مدینہ کو ہی زندگی اور موت کے لیے اختیار فرمایا۔ لہذا کسی سعودی حاکم کے شر پر نقد ہر گز دُنیائے اسلام کے عظیم ترین خطہ حجاز، اس کے علمائے حق اور بالعموم توحید پر استوار سعودی معاشرے پر نقد نہیں، بلکہ یہ بند ذہن مدخلیوں کی شرارت ہے جو حقائق سے پردہ پوشی کے لیے یہ واویلا کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جس مُلک نے بھی قدسیوں کی نسل کشی پر خاموش تعاون کیا اُس کی بنیاد اُس کے ناظم حکومت کا نظریہ اور مقصد ہے، بنص حدیث (انما الاعمال بالنیات) جسکا مطلب ہے کہ ہر عمل اپنے عامل کا مقصود ومُختار ہوتا ہے، مرگی کے دورے کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ہوتا ہے۔ لہذا اُس پالیسی کو اسلام کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے۔ تُرکی اپنی جعلی صوفی خلافت کے لیے کرتب دکھا رہا ہے، مفاد کے خلاف مدد ہرگز نہیں کرے گا۔ ایران کو اپنے رافضی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے فلسطینیوں کے خُون سے کوئی سروکار نہیں بلکہ منتظر ہے کہ شر کی قوتیں اُسے قدس پلیٹ میں رکھ کر دے دیں۔ ہمارے مُلک کی بنیاد عظیم تھی، کلمہ لا الہ الا اللہ، جس کی خاطر لاکھوں جانیں قربان ہوئیں، دوران ھجرت ہمارے خاندان کے بزرگ بھی شہید ہوئے، قبل از ھجرت بھی سکھوں یا ھندؤوں سے جنگ لڑی، لیکن آج تک یہ ملک سیکیولرزم اور اسلام کے درمیان اپنی پہچان نہیں پاسکا۔ جابجا شرکیہ مزارات بھی ہیں۔ ایک نظریاتی مُلک تھا جس کا نظریہ گم کردیا گیا۔ پاکستان جہاد قدس کا نام نہیں لیتا کہ عوامی اور حکومتی سطح پر الحاد، مرعوبیت فرنگ اور بدعات کے بالمُقابل دین خالص کی کشمکش اور داخلی انتشار نے اسے اوروں کا غلام بنادیا ہے۔ بے پناہ افرادی صلاحیتوں کی بنا پر ایٹمی قوت ہے، رب العزت نے قدرتی وسائل بھی وافر دیے ہیں، ہر طبقے میں جذبہ توحید والے بھی ہیں لیکن اجتماعی اور مُلکی سطح پر اصل (لا الہ الا اللہ) سے دوری کی بنا پر ایک قوم وجود میں نہ آسکی اور قوت ایمانی کا فقدان اسقدر رہا کہ اپنے ایک بازو کشمیر کا بھی دفاع نہیں کرسکا۔ البتہ سرکاری طور پر اشراییل کے خلاف عدم تسلیم اور نفرت کا واضح موقف ضرور رکھتا ہے جو اکثر سے بہتر ہے اور جس کی ایک جھلک اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کی تقریر میں بھی نظر آئی۔ افغانستان کی حالیہ امریکی ثُم قطری خلافت پہلے ہی اپنے باشندوں کے دفاع قدس کے لیے جانے پر کڑی پابندی لگا چُکی ہے۔ امارات وغیرہ بھی تسلیم اشڑاییل کی ساتھ ساتھ ابراہیمی معاہدوں کے تحت اپنا دین یہود و نصار ی کو کب کا بیچ چُکے ہیں۔ چنانچہ یہ سب نظریات ہیں جو ممالک کا رُخ متعین کرچُکے۔
اب آئیے سعودیہ کی طرف یعنی اس کے موجودہ حکمران کے نظریہ کیا ہے؟ تو وہ مملکت توحید کو بدترین الحاد اور سیکیولرزم کا مرکز بنانا ہے جس کا آغاز ویژن 2030 کے نام سے کب کا ہوچُکا۔ ایک ایسا سیکیولرزم جو یورپ کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔ البتہ ایک بہت بڑی فصیل اور کلیدی فرق جو حائل ہے کہ سعودیہ پورے عالم اسلام میں مملکت توحید اور نظریاتی طور پر بالعموم منھج صحابہ کے علمبردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، سرزمین حجاز ہونے کی وجہ سے جسکی نمازوں کو لوگ نبوی نماز اور جس کی ہر ریت اور روایت کو باقی دُنیا دینی علامت سمجھتی ہے۔ یہ وصف دُنیا بھر میں کسی اسلامی مُلک کا نہیں اور یہ بات اس کا موجودہ مُلحد بادشاہ اچھی طرح جانتا ہے، البتہ ویژن ۲۰۳۰ کے لیے اس پہچان کو فوری طور پر ختم کرنا اُس کے بس میں ہے نہ مفاد میں۔ نتیجتاً اُسے دینی طبقے سے ایسے افراد درکار تھے جو “منھج” اور “حدیث” ہی کی زبان بولیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے ذکر میں فرمایا تھا (دعاۃ علی ابواب جھنم..ھم من جلدتنا ویتکلمون بألسنتنا), یعنی دین کے ایسے داعی ہونگے جو جھنم کی طرف بلائیں گے لیکن بظاہر ہماری ملت یا قبائل عرب میں سے ہونگے اور شرعی الفاظ و ترکیبات ہی استعمال کریں گے۔ یہی وہ لوگ تھے جنھیں پھر بادشاہ سلامت کے ہر کُفر و فسق کو منھج اطاعت اور انکار منکر کرنے والے ہر عرب عالم حق کی تبدیع اور توہین کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ چند ہیں لیکن حکومتی سرپرستی کی وجہ سے زیادہ نظر آتے ہیں اور بڑے بڑے القاب سے نوازے جاتے ہیں۔ ان کے بالمقابل ان ہی کے اساتذہ یا ان سے علم و فضل میں کہیں برتر ان کے ساتھ درس و تدریس کرنے والے ہم مکتب اور ہم مشرب ہزاروں علمائے حق کو اخوانی خارجی وغیرہ کے القاب دیکر جیلوں میں پھینکا جا چُکا ہے اور باقی خاموش کردیے گئے۔ اسی طرح خارجی ممالک سے حصول تعلیم کے لیے آنے والوں کو بھی اسی نظریہ غیر مشروط طاعت اور تقدیس حاکم پر تیار کیا گیا، بلکہ میں پُوری بصیرت اور ثبوت کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ جدید اور نسبتًا غیر معروف مولویوں کے ذریعے مخصوص موضوعات پر کتابیں لکھوا کر مدخلیت کو پُوری دُنیا میں ایکسپورٹ کیا گیا،کتابیں مُفت تقسیم کی گئیں، جس میں خصوصا پاک و ہند شامل ہیں، اور وہاں سے آنے والے خصوصا پچھلے چند سالوں میں عملًا بھی یہ فکر خوب پھیلاتے رہے۔ مقصد یہی تھا کہ دُنیا بھر سے کوئی عالم دین بھی اگر وہاں ہونے والی خبیث تبدیلی پر رد کرے تو اُسے ان چھوٹے موٹے چیلوں کے ذریعے فورا منھج سے خارج کردیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ منھج آپ کو صرف سعودی شاہ کے لیے نظر آئے گا۔ مثلا انڈیا کے چوزے مدخلی پاکستان یا کسی بھی مسلم حکمران پر تنقید کرتے پائے جاسکتے ہیں لیکن سعودی خلیفے کے خلاف بولنے پر فورا فتوی جڑ دیں گے۔

بہرحال مدخلی فتنہ اس وقت مغرب اور برصغیر میں زوروں پر ہے اور خصوصا سانحہ قدس کے پس منظر میں ایرانی صیہونی گُٹھ جوڑ کے شر سے بڑا شر ثابت ہوا ہے۔ جانتے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ ایرانیوں کا نفاق نابیناؤوں کے علاوہ ہر شخص پر واضح ہے،لہذا اُس کا منھجِ اہل سُنت کو علمی نُقصان قلیل تر ہے، لیکن مدخلیوں نے اہل سُنت کی صفوں میں گُھس کر اور بڑے شد ومد سے اثری، سلفی اور منھجی جیسی مقدس نسبتیں اور حُلیے استعمال کرکے خالص منھج علمِ نبوت پر حملہ کیا جس کو اہل بصیرت تو اوائل میں ہی پہچان چُکے تھے لیکن عوام اور ادھورے مُفتی بکثرت پریشان یا گُمراہ ہونے لگے۔ یہاں تک کہ رب ذوالجلال کی سُنت دائمہ کارفرما ہوئی اور اچانک جہا دِ قبلہ اول اور حُرمت مسلم کے عظیم تقاضوں نے جہاں پوری اُمت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تو وہاں مدخلی منھج بھی پہلی دفعہ ننگا ہوکر ہر خاص و عام کے سامنے آگیا۔ اب ایک طرف سورج سے زیادہ روشن منھج سلف اور اجماع اُمت قائم تھا جو بہرصورت جہا د قدس کو واجب کررہا تھا، تو دوسری طرف مدخلیوں کے لیے اپنے آقاؤوں کے اشڑاییل سے کُفریہ معاہدات اور ترک دفاع قدس پر کتاب و سُنت کے قطعی دلائل کے مقابلے میں اپنے شاہ کے بھرم کا مسئلہ کھڑا تھا۔ یہ ایک امتحان بھی تھا جس کے ذریعے اللہ تعالی کُچھ فریب زدہ لوگوں کی آنکھیں کھول دیتا ہے کہ وہ باطل سے تائب ہوجائیں، اور مومن و مُنافق کا امتیاز بھی ہوجائے، جیسا کہ جہا د اُحد کے امتحان بارے میں فرمایا کہ اس سے ایمان والوں کی پہچان ہوئی (ولیعلم اللہ الذین آمنوا منکم)، جہاد کرنے والے واضح ہوئے (ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم)، حق پر صبر و ثبات والے نمایاں ہوئے(ویعلم الصابرین)، حتی کہ اہل ایمان کے دلوں کے شکوک اور اندھیرے چھٹ گئے اور ایمان نکھر گیا (وليمحص ما فی قلوبکم)،، مگر اکثر مدخلیوں نے ایک دفعہ پھر ہر جھوٹ سچ کے ذریعے حُکم شریعت (جہاد) کی مُخالفت اور شاہ کو فلص-طین کا حقیقی ہمدرد ثابت کرنا شروع کردیا، دلیل اور استدلال کی بنیاد پر نہیں کہ وہ ان کے مُستوی سے اوپر کی چیز ہے، بلکہ پُرفریب نعروں “منھج سلف”، “وہ دیکھو اخوانی” اور علم سے خالی صحافیانہ طرز کے تحریری پروپیگنڈے کے ذریعے۔ مگر اللہ رب العزت بھی اپنے بندوں پر حجت تمام کرکے چھوڑتا ہے۔ اب عین اس وقت جب سفید فاسفورس بموں کے ذریعے اُمت مسلمہ کے قدسی حصے کو صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے، ہزاروں بچوں کے قتل کے ذریعے وہ نسل کشی کی جارہی ہے کہ دنیائے کُفر بھی بلبلا اُٹھی ہے، عین اس وقت جب حرمت قدس کا آخری معرکہ جاری ہے، ان کے آقا نے ریاض میں عالمی موسم فحاشی اور لھو لعب کا اعلان کردیا جس سے ثابت ہوا کہ “شاہ” کی خاموشی مصلحت نہیں بلکہ حقیقی بے غیرتی اور دین فروشی کے تحت ہی تھی۔

واضح رہے کہ تقریبا ایک ماہ قبل ان کا یہی آقا اپنی مملکت میں ایک ایسی تقریب فحاشی کی سرپرستی کرچُکا ہے جس میں آسٹریلیا کی ایک فاحشہ نے نیم برہنہ ناچتے ہوئے رب ذو الجلال کی بدترین گُستاخی کی۔ اس کا نام Iggy Azalea ہے جس کا پیشہ ہی اپنی برہنہ تصاویر نشر کرنا ہے۔ اسے بطور خاص ریاض کنسرٹ کے لیے درآمد کیا گیا تھا۔ اس ملعونہ کے بول ذرا سُنیے(نقل کُفر کُفر نباشد)..
‏ “Lord, lemme know if you got this
Preaching about prophets
It ain’t no one man can stop us
Bow down to a Goddess, bow down to a Goddess, bow down to a Goddess
It ain’t no one man can stop us
Bow down to a Goddess
Goddess! Got it?”
“او خُدا کیا تو نے سمجھ لیا؟ نبیوں کے بارے میں بتاتا ہے؟ کوئی مرد ہمیں روک نہیں سکتا، دیوی کو سجدہ کرو، دیوی کو سجدہ کرو، دیوی کو سجدہ کرو، او خدا کیا تو نے سمجھ لیا؟” ….. اور پھر مجمع عام کے عربی مرد وزن ایک ردھم میں جھومنے لگتے ہیں۔ یہ سب میڈیا پر موجود ہے، جسے شک ہے اور آنکھوں اور کانوں میں برداشت کی سکت ہے تحقیق کرسکتا ہے۔ والعیاذ باللہ من ذلک۔
موجودہ موسم ریاض بھی جو عین قدسیوں کے اجتماعی قتل کے موقع پر منعقد کیا گیا، اسی طرح کے فواحش اور مُنکرات پر مشتمل ہے۔ کوئی کہ سکتا ہے یہ تو پاکستان میں بھی ہوتا ہے باقی جگہوں پر بھی،، لیکن ہمارا مقدمہ یہ نہیں، ہم صرف یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا دُنیا کا کوئی اسلامی مُلک بشمول پاکستان، یا چلیں کُفر کی کوئی ریاست ہی سہی جہاد قدس کا شریعت اور منھج صحابہ کے نام پر انکار کررہی ہے؟ کیا حاکم کے علانیہ کفر و فسوق پر سکوت بلکہ اُس کے دفاع کو منھج صحابہ کے نام پر فرقہ مدخلیہ کے علاوہ کوئی پیش کررہا ہے؟ کیا کُفار یہو د ونصاری کو چھوڑ کر جہاد قدس کے وجوب کا فتوی دینے والے علمائے حق پر مدخلیوں کے علاوہ کوئی بدعتی اور غیر منھجی ہونے کے فتوے جڑ رہا ہے؟ سیکیولر اگر یہ کام کرتا ہے تو کُفر کے تراشیدہ دلائل کے ساتھ جن کا بُطلان مسلمانوں پر واضح ہوتا ہے، لیکن مداخلہ کا شر اتنا مُفرط ہے کہ یہ سب کُچھ منھج اہلحدیث کے نام پر کررہے ہیں؟ کیا ان کا شر کُل عالم کے مسلمانوں اور مبلغین حق کے لیے زیادہ بڑا نہیں؟ ان کا ایک مشہور مولوی سلیمان رُحیلی حرم نبوی میں بیٹھ کر دین رسول اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے، اس کی جتنی تقریریں آئیں اُن کا ماحصل صرف “شاہ” کے شر کا دفاع اور جہاد قدس سے دور رکھنا ہے۔ کیا یہ دین میں عظیم فتنہ نہیں؟ کیا اب قدس اور اہل قدس کا کسی بھی تاویل باطل کے ذریعے یہو دی بندر اور خنازیر کے مقابلے میں دفاع کرنا اور اُسے کسی مُلحد اور خائن حاکم کے تابع نہ سمجھنا بھی منھج شریعت سے بغاوت مانا جائے گا جبکہ ہم زندہ ہیں؟ کتاب اللہ کا فیصلہ موجود ہے؟ بعض تقریروں میں رحیلی نام لے لے کر مدح “شاہ” کرتا ہے۔ حالانکہ اس طرح کی مُطلق اور عام مدح سرائی اُس کُفر کو بھی ترویج دیتی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ اس طرح کے مولویوں کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فرمان ہے (رجل وسخ) یعنی گندا انسان ہے، جاؤ پڑھو جاکر کہ سلاطین اور امراء کے شر کو بالواسطہ اور بلاواسطہ شرعی تحفظ دینے والوں کے بارے میں سلف کا منھج کیا ہے؟؟ اُن کی چوکھٹ سے وابستہ رہنے اور مدح عام کرنے والوں کو سلف کیا لقب دیا کرتے تھے۔ پڑھیے طاؤس کو، نخعی کو، ثوری اور فضیل بن عیاض کو، دیکھیے سوید بن غفلہ، اعرج اور ابن مبارک اور دیگر ائمہ سلف کو۔رحمھم اللہ تعالی اجمعین۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سلاطین کے دروازے پر جانے والا فتنہ میں پڑگیا (من اتی ابواب السلطان افتتن)، وفی روایۃ (من لزم السلطان افتتن)، یہ ہے سُنت نبی کریم اور منھج صحابہ، نہ کہ مدخلیوں کی بُوٹ پالشی! ابن عبد البر نے جامع بیان العلم میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ذکر کیا کہ ( خبردار فتنوں کے مقامات سے بچو، کہا گیا وہ کیا؟ کہا امراء کے دروازے جن سے ایک شخص داخل ہوتا ہے اُن کے جھوٹ کو سچ کردکھاتا اور وہ ثابت کرتا ہے جو اُن میں نہیں) [إياكم ومواقف الفتن! قيل وما مواقف الفتن؟ قال أبواب الأمير؛ يدخل الرجل على الأمير، فيصدقه بالكذب، ويقول ما ليس فيه], اس میں ابو اسحاق کا عنعنہ ہے لیکن ہم نے بطور شاہد پیش کیا کہ مسئلہ اظہر من الشمس ہے، اور اسپر نصوص و آثار کثیر۔ سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ “جب تم کسی عالم کو امراء پر وارد ہوتے ہوئے دیکھو تو اس سے بچو کہ وہ چور ہے”۔ اور یہ رُحیلی بھی اسی طرح کا چور ہے جس نے رسول اللہ کے دین میں خیانت کی اور اس موقع پر اُمت کی بہتے ہوئے زخموں پر نمک پاشی کی اور دین محمدی میں تحریف کرتے ہوئے جہا د قدس کو دفاعی جہا د ماننے سے انکار کیا۔ واضح رہے کہ یہ شخص جسے مدخلی اپنے ایجنڈے کے تحت امام عقیدہ بنا کر پیش کرتے ہیں یہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی عظیم الشان کتاب “کتاب التوحید” کے منھج علمی میں بھی خیانت کا مُرتکب ہوچُکا ہے، اور بقول عالم جلیل العلامہ عبد الرحمن بن ناصر البراك حفظہ اللہ تعالی “وضع” يعنی جھوٹ اور کذب کا مرتکب ہوا۔ اسی طرح کتاب التوحید کی شرح میں جو ڈنڈی ماری اور شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کے کلام پر تلبیس کی اس کا بیان مدینہ یونیورسٹی کے شعبہ عقیدہ کے سابق رئیس العلامہ عبد اللہ بن عبد الرحمن الجربوع نے بھی کیا۔ الغرض یہ شخص منھج و عقیدہ میں ثقاہت سے خالی ایک منحرف شخص ہے۔ میں نے تو علمائے کبار کی ان تصریحات سے قبل ہی اس کے انداز گفتگو سے ایک فطری بیزاری محسوس کی جس میں علماء کا وقار اور متانت کم اور چنگھاڑنے کا انداز زیادہ تھا۔ نبی کریم کا اس طرز گفتگو یعنی جبڑوں کو کھول کر تکلف اور تکبر سے بولنے والوں کے لیے وعید ہے کہ آپ علیہ السلام اُن سے نفرت فرماتے ہیں اور قیامت کے روز آپ علیہ السلام کی مجلس یہ سب سے زیادہ دور ہونگے۔ (وإنَّ مِن أبغضِكُم إليَّ وأبعدِكُم منِّي يومَ القيامةِ الثَّرثارونَ والمتشدِّقونَ والمتفَيهِقونَ، قالوا : يا رسولَ اللَّهِ، قد علِمنا الثَّرثارينَ والمتشدِّقينَ فما المتفَيهقونَ ؟ قالَ : المتَكَبِّرونَ)۔ لیکن مداخلہ کے طریقہ واردات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان سرکاری مولویوں کو خوب مُفخم اور گراں قسم کے القاب سے پُکارا جائے، حالانکہ یہ بذات خود عجز کی دلیل ہے، کیونکہ معلوم ہے کہ جب کلام میں دلیل نہ ہو تو آواز اونچی ہوجایا کرتی ہے۔

ضیاءاللہ برنی