ہماری سابقہ تحریر کے رد عمل میں مداخلہ اور اُن سے متاثرہ افراد کی طرف سے شدید رد عمل ظاہر ہوا جس میں حسب توقع تاصیل علمی کی بجائے “شاہ” کی وفاداری، اتہامات اور ذہنی جمود کی چیخ تھی۔ میں نکتہ وار کُچھ باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ ہر ایک کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ لیکن اس سے پہلے وضاحت ہوجائے۔ ایک محترم عالم دین نے مُجھے کہا کہ آپ اپنی تحریروں میں صرف اصولی مباحث یا (تعبیر من میں) فتوے کا اسلوب اپنائے رکھیں جیسا کہ آپ کا مزاج ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں جب اُمت شدید کرب میں ہے اور معرکہ حق و باطل بپا ہے، کسی بھی انداز میں ابلاغ اہم ہے، تاکہ ہر شخص بات کو سمجھ سکے، اور ان لوگوں کے فتنے سے بچ سکے کہ جو جہالت کی اس پستی کو پہنچ چُکے ہیں کہ ایک مُلحد سعودی بادشاہ اور اُس کے کارندے کی حُرمت میں اُمت مسلمہ کے خون کی حُرمت اور بیت المقدس کی حُرمت پامال کررہے ہیں اور پھر زیر لب مسکراتے ہیں، اٹھکیلیاں کرتے ہیں۔

ان حالات میں جب ہزاروں ملحدین اور مشرکین نصاری اسلام کی طرف راغب ہوچُکے یا اسے قبول کررہے ہیں بربنائے حیرت کہ آخر دین اسلام میں وہ کیا جوہر ہے جو اہل قدس کی مانند مُسلمانوں کو موت کے خوف سے اس حد تک بے پروا کردیتا ہے؟ اور یہ جذباتی بات نہیں بلکہ شماریات اور ثبوت ہیں۔  ان حالات میں جب غزہ کی کُھلی جیل میں بیس لاکھ سے زائد محصور مسلمانوں کی روزانہ کی بنیاد پر نسل کشی کی جارہی ہے، اور اُن پر سرحدیں اور خوراک اور طبی امداد بند کرنے والے یا اُن کے بہتے ہوئے خون میں جشن ننگ و عار منانے والے مصر، اردن، ایران اور سعودیہ جیسے اسلامی ملک ہیں، بلکہ مصر کے بارے خبر ہے کہ طبی مدد کے قافلے کی آڑ میں یہودی فوجی جتھے فلسطینی کیمپ تک پہنچائے، اور ان حالات میں کہ جب غزہ کی فضاؤوں میں شہیدوں کا خون کستوری بن کر مہک رہا ہے، یہ ہرگز اہم نہیں کہ میں اپنی تحریر میں “مُفتی” نظر آتا ہوں یا نہیں، بلکہ یہ ضروری ہے کہ بیان حق ہو، آسان ترین لیکن علمی پیرائے میں۔

جہاں فتوی ہے وہاں فتوے کی زبان ہو، جہاں غم ہے وہ جھلکے، جہاں وعظ ہے وہاں بیانِ درد ہو، جہاں شدت ہے وہاں شدت ہو، کہ حالات جنگ میں تو شریعت نماز جیسے واجب کی ہیئت کو بھی تبدیل کردیتی ہے۔ (فإن خفتم فرجالا او ركبانا) کہ چل کر، سواری میں،یا دوڑ کر یا کسی بھی شکل میں بتقاضائے حالت نماز ادا کرلو۔ اور میں یہ بھی سمجھتا ہو اور اُن تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو، جو اس وقت علمائے حق کی معیت میں قدس اور اہل قدس کی عصمت کے لیے کھڑے ہیں اور مداخلہ کے فتنے کا مقابلہ کررہے ہیں کہ یہ بھی ایک بہت بڑا جہاد اور عظیم مورچہ ہے جو اللہ رب العزت نے آپکو دیا ہے، قران کہتا ہے

(فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون)

یعنی سورۃ توبہ میں بحث قتال کے عین بیچ اللہ رب العزت نے مجاہدین کے ساتھ فقہائے اُمت کا ذکر فرمایا کیونکہ وہ اسلام کی سرحدوں پر خارجی مورچہ سنبھالتے ہیں، جبکہ علماء باذن اللہ تعالی نظریاتی سرحدوں کا داخلی مورچہ محفوظ رکھتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ علم ہی عمل کی اصل ہے۔ یہ منافقین یا مدخلی فتنے اگر جہاد قدس کے بارے میں علم کے نام پر فساد کو پھیلائیں گے تو اس سے جہاد صالح کی بجائے اُمت میں نفاق اور ذلت کا پودا پھوٹے گا، جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے۔
البتہ ایک کرب شدید ضرور ہے، کہ مُجھے آج جہاد قدس کے وجوب کو ثابت کرنے کے لیے کسی مُلحد، کافر یا زندیق سے نہیں، کسی یہودی یا نصرانی سے نہیں، بلکہ مُسلسل اس ٹولے سے نبرد آزما ہونا پڑرہا ہے جو دلیل کی بجائے شاہی سرپرستی کی بنا پر خُود کو “سلفیت” کا نمائندہ کہتا ہے، وہ سلفیت کہ جس کا امتیاز ہی دلیل و بُرہان ہوا کرتا تھا، جس نے تقلید “بابا” کے جمود کو توڑا تھا، جو فاسق حکمرانوں کے سامنے علم حق بلند کرنے والی تھی، آج یہ ٹولہ کہتا ہے کہ اگر ہمارے مولوی چُپ ہیں تو کوئی دلیل تو ہوگی نا! تم بولنے کو کیوں کہتے ہو؟ ہم کہتے ہیں مولوی صاحب! اہلحدیث کب سے باطنی ہوگئے؟ اس وقت میرے بچوں میری ماؤوں بہنوں کا دفاع یا اس کا بیان واجب نہیں تو دلیل لاؤ۔ اُمت پر ایک بلائے عظیم ہے، کرب ایسا ہے کہ کسی پل چین نہیں، تمہارے عرب خلیفے اس موقع پر ناچ گانا کرتے ہیں لیکن قدس کے لیے جہاد دفاعی نہیں کرتے۔ لہذا ایک سوال شرعی ان مدخلی مولویوں کی طرف پوری قوت کے ساتھ متوجہ ہے جو ان خلیفوں کے ترک جہاد پر چُپ ہیں یا اُس کا دفاع کررہے ہیں کہ “کیوں”؟؟
اعطونا شیئا من کتاب اللہ او سنة رسول اللہ۔ یہ کبار صغار کھیلنے اور تقدس کے پردے میں چُھپنے کی کوشش مت کرو۔ چُپ کے پیچھے کونسا باطنی علم ہے، وہ سامنے لاؤ نا مولانا صاحب! اجی “ہمارے علماء” کسی وجہ سے نہیں بولتے ہونگے۔ تو وہ وجہ الہامی ہے یا شرعی؟
ہم کسی مُعین ذات کو قطعا مطعون نہیں کرتے کہ اس کا معاملہ اس کے رب کے ساتھ ہے اور وہ اس کی مجبوریاں بہتر جانتا ہے، کل یہی مجبوریاں ہماری بھی ہوسکتی ہیں، لیکن بالعموم علمائے اُمت کو اُن کی ذمہ داری اور فرض یاد دلانا ہم پر واجب ہے، ورنہ ہم بھی عند اللہ مُجرم ہونگے۔ اس کے جواب میں قطعا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چُپ ہیں تو کوئی شرعی دلیل ہوگی۔ “ہوگی” کا منھج اہلحدیث سے کوئی تعلق نہیں۔ دلیل بتانی پڑے گی کیونکہ یہاں حق بولنا شریعت نے واجب کیا ہے۔ ورنہ صوفی بھی کہ دے گا کہ میرا پیر نماز نہیں پڑھتا تو کوئی دلیل تو ہوگی۔ اُن سے پھر کیوں شکوہ؟ اُن کا دین طریقت اور تمہارا دین شریعت کیسے؟ جبکہ جہاد دفاعی ایمان باللہ کے بعد سب سے بڑا واجب ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں

(والعدوُّ الصائل الذي يفسد الدين والدنيا ليس أوجب بعد الإيمان من دفعه)

رہے وہ لوگ جو جہاد قدس کو ترک کرنے والے خلیفے کے عمل کو کتاب و سُنت کا تقاضا بتا کر اُمت میں عظیم گمراہی پھیلا رہے ہیں ، تو ان کا سرغنہ اس وقت سلیمان رُحیلی ہے جس کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ اُمت اس وقت ایک خلافت کے تحت ہونے کی بجائے کئی ممالک میں منقسم ہے اور ہر ایک کے اسرائیل سے الگ الگ معاہدے ہیں لہذا آج دفاع قدس کے لیے کوئی بھی جانا چاہے تو اُس کا جہاد دفاعی نہیں بلکہ طلبی ہوگا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس وقت حُرمت مسلم و قدس کے لیے کیا جانے والا جہاد باجماع اُمت ہر صورت میں بغیر کسی شرط کے مشروع ہے، اور ترک کرنے والے خلیفے کا دفاع مُمکن نہیں تو اس جہاد کو دفاع کے باب سے نکال کر طلب یا اقدام کے باب میں داخل کردیا جائے تاکہ پھر ہم کمزوری اور عدم وسائل جیسی شرائط پیش کرکے اُمت کے بہتے ہوئے خُون پر خلیفہ صاحب کو کلین چٹ دے سکیں، کہ آخر جو پڑھا ہے اُس کا حقِ خدمت بھی تو ادا کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کمزوری وغیرہ جیسی بات رُحیلی نے خود صراحتًا نہیں کی، کیونکہ معلوم ہے کہ باطل ہے، اس نے شرارتًا وہی کہا جس کا خلاصہ ہم نے بیان کیا، لیکن چونکہ اس کی بات کا لزوم یہی ہے، تو تب سے بچے مدخلی مُسلسل دھیمے سروں میں ضعف اور عدم قدرت جیسی باتیں کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ البتہ کُھل کر یہ بھی نہیں کہتے کہ ہمارے خلیفے کمزوری کی وجہ سے دفاع قدس نہیں کررہے ہیں، کیونکہ باطل کا طریقہ واردات یہی ہے کہ مبہم بات کرو ، سادہ اور فطری اذہان میں شکوک پیدا کرو اور بھاگ جاؤ۔ نہ مقدمہ واضح ہو نہ دلیل، جیسا کہ اہل بدعت کیا کرتے ہیں۔ ویسے بھی یہ انڈیا کے بچے مدخلی صرف اپنے مولویوں کے مقلد ہیں، اُن کی کتابوں کے ترجمے کرکے منہج اور تجارت کا کاروبار یکجا تو کرسکتے ہیں، لیکن اُن کی بات کی مقبول شرعی توجیہ کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ ہم نے بارہا دیکھا ہے۔ اور اب ایک بار پھر، اوپر جو رُحیلی نے جہاد دفع اور طلب کے فرق، اطاعت حاکم اور ریاستی معاہدات وغیرہ کے ذریعے مجاہدین اور ان کے مؤیدین علماء بلکہ جہاد قدس کی حقانیت پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی ہے، ہم آئندہ قسط میں ازروئے کتاب و سُنت اس کے جہل مرکب کو بے نقاب کریں گے اور ثابت کریں گے کہ یہ نفاق ہے۔ ان شاء اللہ تعالی۔ بعض احباب گرامی کا اصرار تھا کہ تحریر طویل ہوتی ہے اس لیے قسط وار نشر کریں۔
واللہ ھو الموفق۔

ضیاء اللہ برنی