خبر نہیں کہ کردار و عمل کی صباحت کس سیاست کی نذر ہو گئی؟ حُسنِ عمل کو کس منحوس دیمک نے چاٹ کھایا؟ ہماری چشمِ بلوریں، حرص و ہوس کی اتنی ندیدی کیوں ہو گئی ہیں کہ رحم دلی، مُروّت اور انسانیت، متاعِ گم گشتہ ہوتی چلی جا رہی ہیں۔آدمی، خود آدمیت سے دُور کیوں ہو چلا ہے؟ انسان، انسانیت سے کیوں منہ موڑ چکا ہے؟ جگر مراد آبادی نے کہا تھا۔
آدمی کے پاس سب کچھ ہے، مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں
جس طرف بھی دیکھیں، جہاں بھی نظر دوڑائیں، تاحدّ نظر، ہوس بکھری پڑی ہے۔جا بہ جا، روپے پیسے کا لوبھ ہمارا منہ چِڑا رہا ہے۔شاید ہم بھٹک چکے ہیں، ہم نے راست، مستقیم اور نفیس راستوں کو فراموش کر دیا ہے۔اگرچہ یہ بدترین رُخ مکمل طور پر ہمارے معاشرے کا عکاس اور مظہر ہرگز نہیں ہے مگر ہے تو ہمارے ہی معاشرے کی ایک بدنما سی جھلک، ہمارے معاشرے کا ایک ایسا بھیانک عکس جو ہم سب کے لیے شرمندگی کا باعث ہے، جون ایلیا کا شعر ہے۔
سب سے پُر امن واقعہ یہ ہے
آدمی، آدمی کو بھول گیا
ہم اپنے مَن کے اندر اسرائیل جیسی ایک سفاک، قزاق اور بے رحم ریاست قائم کر کے، زبان سے مدینے کی ریاست قائم کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔لوگ اتنے اِکل کُھرے ہو چکے ہیں کہ روپے پیسے کے مقابل انسانی جانوں کو بھی کوئی اَہمّیت دینے پر آمادہ نہیں۔جتنی سفّاکیت کسی کی دسترس میں ہوتی ہے، وہ کر گزرتا ہے۔آلام کے مارے لوگ جاں بہ لب بھی ہوں تب بھی ہوس زادوں کو رتّی برابر رحم نہیں آتا۔ہم جو حقوق العباد کے سب سے بڑے داعی ہیں، ہمارے ہاتھوں میں انڈے، چائے اور ہوٹل کے چند کمرے بھی ایسی کیفیت میں آ جائیں کہ لوگوں کو ان کی شدید ضرورت ہو تو تب بھی ہم وحشی جانور بن بیٹھنے میں دیر نہیں لگاتے۔ابھی تو ہم ریاستِ مدینہ کے قیام کے منتظر ہیں اور ہمارے اخلاق کا اتنا دیوالہ نکل چکا ہے کہ گاڑیوں کو محض دھکّے لگانے کے بھی پیسے لینے پر مُصر ہیں۔شہزاد احمد نے ایسا ہی ایک منظر یوں بیان کیا ہے۔
ہزار چہرے ہیں موجود، آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا؟
مجھے اپنے شہر کہروڑ پکا کے ایک دوست نے بتایا کہ مری سانحے سے دو دن قبل اُنھوں نے ایک ہوٹل میں دو رات قیام کے 36 ہزاار روپے ادا کیے، مگر کمرے کی حالت اتنی ناگفتہ بہ اور ابتر تھی کہ وہ ایک رات کا کرایہ ہوٹل مالک کے پاس چھوڑ کر راولپنڈی آ کر رہنے پر مجبور ہو گئے۔مَیں حیران اِس بات پر ہوں کہ مُلک بھر میں آلو، گوبھی، پیاز اور ٹماٹر کے نرخ مقرر کیے جا سکتے ہیں تو مری کے ہوٹلوں میں قیام کے نرخ مقرر کرنے اور نرخ سے تجاوز کرنے والوں کو سخت سزا دینے میں کون سی چیز مانع اور حائل ہے۔
لوگ اپنی مَحبّتوں کو پروان چڑھانے کے لیے مری آتے ہیں۔کتنے ہی نئے دُولھے اور نویلی دُلھنیں اپنی زندگی کے نئے سفر کے ابتدائی ایام کو یادگار بنانے کے لیے چاہتوں اور امنگوں سے لبریز دل لے کر وہاں جاتے ہیں اور کتنے ہی بچے اپنے والدین کے ہمراہ شوخ و شنگ شرارتیں کر کے مری کے دل کش اور دل رُبا حُسن کو مزید سحر انگیز بنانے چلے آتے ہیں، مگر آج کوہ ساروں کی ملکہ اور پربتوں کی شہزادی اداسیوں میں ڈھلی ہے۔مری کے یخ بستہ موسم غم زدہ ہیں، وہاں پربتوں پر اٹھلاتی گھنگور گھٹائیں بے حد مغموم ہیں، وہاں کی سرد ہوائیں اشک فشاں اور مری کے مکینوں سے سوال کناں ہیں کہ تم نے اپنا سارا ظرف کسی برف کی دبیز تہ تلے دبا کر ایک طرف کیوں رکھ دیا ہے؟ خوش خصالی، نیک طینتی، درد مندی اور غم گساری جیسے جذبات و احساسات تمھاری سرشت اور خُو سے کیوں نکل چکے ہیں؟
ایسے کسی بھی سانحے پر لوگ ایک بار جُھرجُھری لے کر پھر اسی رَوِش اور ڈگر پر کیوں لَوٹ آتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہوس کدہ بنا کر کیوں بیٹھ جاتے ہیں؟ وجہ شاید یہی ہے کہ جزا و سزا کا نظام معطّل سا ہو کر رہ گیا ہے یا اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ اس تک رسائی بے حد دشوار بن چکی ہے۔اس تمام تر بے حسی کی ایک وجہ یہ بھی تو ہے کہ ہم نے یہ یکسر بھلا دیا ہے کہ بالآخر ہم نے بھی ایک روز مرنا ہے۔منظر بھوپالی کے اشعار ہیں۔
جو چاہے کیجیے! کوئی سزا تو ہے ہی نہیں
زمانہ سوچ رہا ہے، خدا تو ہے ہی نہیں
دِکھا رہے ہو نئی منزلوں کے خواب ہمیں
تمھارے پاس کوئی راستہ تو ہے ہی نہیں
یہ حقیقت ہے کہ ہمیں ایک دن اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا جواب دہ ہونا ہے۔وہ دن ضرور آئے گا جب ان ہی مساجد میں ہماری نمازِ جنازہ کے اعلانات بھی ہوں گے، ہمیں بھی آخری بار غسل دے کر دفن کر دیا جائے گا اور ایسا ہو کر رہے گا، ان تمام باتوں کے باوجود بھی لوگ عبرت نہیں پکڑتے اور خدا بن بیٹھتے ہیں۔افتخار عارف کا بہت عمدہ شعر ہے۔
خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں