سوال (850)

صلاۃ التسبیح (تسبيح نماز ) کے حوالے سے رہنمائی کریں کہ کیا یہ نماز ثابت ہے ؟

جواب

صلاۃ التسبیح کی روایت ضعیف اور باطل ہے کبار آئمہ محدثین نے اس ضعیف قرار دیا. ایسی کوئی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم، تابعین عظام اور تبع تابعین سے ثابت نہیں ہے تو اس کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں ہے. اس کی جو سب سے عمدہ سند ہے اس کو موسی بن عبد العزیز امام حکم بن ابان سے روایت کرتا ہے اور امام حکم بن ابان امام عکرمہ سے روایت کرتے ہیں. امام حکم بن ابان مکثر راوی ہیں ان کے سینکڑوں شاگرد ہیں لیکن کسی نے بھی یہ حدیث ان سے روایت نہیں کی سوائے موسی بن عبد العزیز کے موسی بن عبد العزیز بہت مقل راوی ہیں اور مختلف فیہ راوی ہیں امام حکم سے ان کا تفرد قبول نہیں ، خاص طور پر اس طرح کی روایت میں کہ جس میں بہت زیادہ ثواب بتایا گیا ہے جبکہ یہ نماز صحابہ میں معروف نہیں ہے پھر اس پر مزید یہ کہ آئمہ نے اس حدیث پر ضعیف، باطل اور موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔
امام احمد بن حنبل ، امام عقیلی، امام ترمذی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے امام ابن جوزی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کو موضوع قرار دیا ہے ۔
شیخ صالح الفوزان نے اس نماز کو بدعت قرار دیا ہے۔

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

ماشاءاللہ
اضافہ یہ ہے کہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے کہا ان صح الخبر فان في القلب من هذا الاسناد شيئا (صحيح ابن خزيمة)
امام صاحب کی عادت ہے عموما معلول طریق کو ان الفاظ سے بیان کرتے ہیں (کما قالہ الطریفی)
اور اسی تفرد والی روایت کے متعلق کہا جس کی طرف فاضل بھائی نے اشارہ کیا ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ اسے مرسل قرار دیتے ہیں ھذا ظاہر کلامہ رحمہ اللہ
نووی کا کلام المجموع شرح المهذب میں دیکھیے۔
ابن العربی کا کلام عارضہ میں دیکھئے اور ابن حجر نے الفتوحات الربانیہ میں کہا غریب۔
ابن العثیمین ابن باز رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہی ہے۔۔
امام مسلم کے قول سے جو دلیل لی گئی کہ یہ طریق صحیح ہے درست نہیں، انہوں نے دوسرے طرق کے مقابلے میں اصح کہا ہے۔
ابو اسحاق الحوینی حفظہ اللہ کا رسالہ مفید ہے ۔ البتہ ان کے موقف سے اتفاق نہیں۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ