اگر آپ غلط فہمیوں کے اس نرغے میں پھنس گئے ہیں کہ اب پَت جَھڑ اور خزاں رُتوں کی جگہ گلاب موسم آ جائیں گے، تو خود فریبی کے اس حصار سے باہر تشریف لے آئیے، آپ غزہ میں عارضی جنگ بندی پر کبھی اس گمان میں مبتلا نہ ہوں کہ اب وہاں امن و سکون کے شگوفے کِھل اٹھیں گے، آپ اپنے ذہن سے اس باطل خیال کو بھی جھٹک دیجیے کہ اس عارضی جنگ بندی پر وہاں بہاریں جلوہ افروز ہو جائیں گی، وہاں امن کی فاختائیں بسیرا کر لیں گی، وہاں پر ننّھی تتلیوں کے چہروں پر مسکان لوٹ آئیں گی، وہاں گلاب زادوں کے معصوم چہروں پر تبسّم اور مسکراہٹوں کے موتیے کِھل اٹھیں گے، آپ 2015 ء میں گرفتار ہونے والی فلسطینی خاتون مرح کبیر کی رہائی پر بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہونے سے گریز کریں کہ اب یہودی دجل و فریب سے فلسطینی مسلمان محفوظ ہو جائیں گے۔۔۔نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔یہودیوں کی درندگی کبھی کم نہیں ہو سکتی اور نہ کبھی عالمی طاقتوں کے منصوبوں میں غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ ہم دردی اور غم گساری کا خفیف سا جذبہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔غزہ کے باسی فقط سفاک یہودیوں سے ہی فریب نہیں کھا رہے، 57 اسلامی ممالک کے حکمران بھی اپنے ڈھکے چُھپے، محتاط اور نپے تُلے بیانات کے ذریعے دھوکا ہی دے رہے ہیں، غزہ کے مظلوم تو مسلم حکمرانوں سے بھی دھوکے کھانے کے عادی ہو چکے ہیں۔” عکس سمستی پوری “ کے بہ قول:-
یار میں اتنا بھوکا ہوں
دھوکا بھی کھا لیتا ہوں
آپ 2008 ء اوراق پلٹ لیجیے! جب 6 ماہ کے لیے جنگ بندی کی گئی تھی، جنگ بند کرنے کا یہ معاہدہ 19 جولائی کو نافذ ہُوا تھا، اس کے مطابق جنگ بندی میں غزہ پر فوجی اور اقتصادی محاصرے میں نرمی شامل تھی، تمام سرحدی گذر گاہوں کو کھولنا بھی اس معاہدے کا حصّہ تھا، مگر اسرائیل اس جنگ بندی پر صرف ایک مہینے تک عمل کر سکا اور اگست میں ہی اسرائیل نے ساحلی پٹّی پر بڑے پیمانے پر زمینی حملہ کردیا تھا۔
پھر 2012 ء آیا اور اسرائیل نے غزہ پر 8 دنوں تک شدید بم باری کی۔جب سیکڑوں فلسطینیوں کا خون بہ چکا تو امریکا اور مصر ثالث بن گئے اور معاہدہ کیا گیا جس میں غزہ کی پٹّی میں ہتھیاروں کی سمگلنگ کو روکنے اور طویل عرصے تک تشدد بند کرنے کا معاہدہ شامل تھا، مگر اسرائیل نے کچھ ہی عرصے بعد مصر پر حماس کا ساتھ دینے کا الزام لگایا اور فلسطینیوں پر حملے شروع کر دیے۔
2014 ء کو دیکھ لیجیے! پچاس دنوں تک جنگ جاری رہی اور 2000 ء سے زائد لوگ اس جنگ کا ایندھن بنا دیے گئے، پھر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، مگر یہ جنگ بندی بھی اسرائیلی طاقت کے خمار تلے دب کر ختم ہو گئی۔
یعنی آج تک جنگ بندی کے جتنے بھی معاہدے ہوئے ہیں، اپنے مقاصد پورے ہونے کے فوراً بعد، وہ سب معاہدے اسرائیل نے بڑی بے دردی کے ساتھ روند ڈالے۔جنگ بندی کے معاہدوں کے ذریعے اسرائیل نئے سرے سے حملوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
7 اکتوبر 2023 ء کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے شروع ہونے والی لڑائی میں 14854 فلسطینیوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑائے جا چکے ہیں، بطخوں کے بچوں کو سڑک پر گزرتے دیکھ کر اپنی گاڑیاں روک لینے والے انسانی حقوق کے ٹھیکے داروں نے فلسطین میں 6150 بچوں کے ننّھے جسموں کو آگ اور بارود میں بھون کر رکھ دیا ہے، خواتین کے حقوق کے عالمی چیمپئنز نے غزہ کی 4000 خواتین کے جسموں کو ٹینکوں کے ذریعے بارود برسا کر بھسم کر دیا ہے اور 36000 سے زیادہ فلسطینی آج زخموں سے کراہ رہے ہیں۔ظلم و جبر دیکھیے کہ 4700 بچوں اور خواتین سمیت 7000 فلسطینیوں کا کوئی اتا پتا ہی نہیں کہ انھیں کہاں گم کر دیا گیا؟ اغلب گمان یہی ہے کہ یہ بھی شہید کر دیے گئے ہوں گے۔
اس طرح کی جنگ بندی کے کبھی مثبت نتائج نہیں برآمد ہوا کرتے، یہ جنگ بندی کچھ سستانے یا جنگی حربوں میں بھیانک تبدیلی لانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ازل سے ہی یہودیت کے دل میں مسلم امّہ کے متعلق ایسا کھوٹ ہے جو کبھی نکل ہی نہیں سکتا۔بی بی سی کے مطابق بھی ” اسرائیل کے یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے دوران اسرائیلی فوج کی کارروائیاں چار سے نو دن تک رُک گئی ہیں۔عارضی جنگ بندی کا دار و مدار اس بات پر منحصر ہے کہ حماس کتنے یرغمالیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے “ یعنی یہ جنگ بندی قیدیوں کی رہائی تک محدود بلکہ مشروط ہے۔جیسے ہی اسرائیل کے مقاصد پورے ہوں گے، وہ بغیر کسی اعلان کے جنگ بندی کا معاہدہ ختم کر دے گا اور غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ دوبارہ شروع کر دی جائے گی، جو پہلے سے کہیں زیادہ خوں خوار ہو گی اور غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لینے تک جاری رکھی جائے گی۔یہ جنگ بندی سازش کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

غاصب اسرائیلی فوج نے ابھی ہونے والی عارضی غزہ جنگ بندی معاہدے کی ابھی سے خلاف ورزی کرنا شروع کر دی ہے۔امداد لے جانے والے 200 ٹرکوں میں سے صرف 61 ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔اہلِ فلسطین کو بھوک اور پیاس سے مارا جا رہا ہے، مگر آفرین ہے اہلِ فلسطین کی آزادی کے حصول کے لیے جاری جدو جہد کی استقامت پر کہ انتہائی بے سروسامانی اور بے چارگی میں بھی آزادی کی جد وجہد مکمل آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔خدیجہ مستور نے کہا تھا ” مجھے امن سے مَحبّت ہے، مجھے جنگ سے نفرت ہے، مگر مجھے اس جنگ سے بھی امن کی طرح مَحبّت ہے جو انسان اپنی آزادی، اپنی عزت اور ملک کی بقا کے لیے لڑتا ہے۔“
دکھ، ملال اور افسوس یہود و نصارٰی کے مکر وفریب پر نہیں، دکھ تو مسلم حکمرانوں کے بے حسی پر ہے، ماتم تو جیتے جاگتے 57 اسلامی ممالک کے غلام حکمرانوں پر ہے اور فلسطین کے اصل گناہ گار اور مجرم بھی یہی ہیں۔نجیب احمد کا بہت عمدہ شعر ہے:-
کس نے وفا کے نام پہ دھوکا دیا مجھے؟
کس سے کہوں کہ میرا گنہ گار کون ہے؟

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )