سوال (2348)

زید نے خالد سے تین لاکھ روپے اس لیے لیے تھے کہ میں ان پیسوں پر کاروبار کروں گا اور پھر منافع آپس میں تقسیم کریں گے، لیکن منافع کا حصہ نصف یا تہائی متعین نہیں ہوا تھا، خالد نے پیسے دے دیے، زید نے وہ پیسے کاروبار میں لگانے کے بجائے اپنا قرض اتار لیا ہے، اب پانچ سال گزرنے کے بعد خالد زید سے اپنے روپے منافع سمیت مانگتے ہیں تو کیا خالد کو ان پیسوں کا منافع لینا جائز ہے؟

جواب

سوال واضح نہیں ہے، کیا خالد نے زید کو تین لاکھ دیے تو کوئی کاروبار متعین ہوا تھا یا نہیں؟ اسی طرح کاروبار کا طریقہ یعنی مشارکہ یا مضاربہ وغیرہ متعین ہوا تھا ان پانچ سالوں میں خالد نے زید سے کبھی کاروبار کا پوچھا یا نہیں؟

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

سائل:
زید نے صرف یہ کہہ دیا تھا کہ میں اس پر کاروبار کروں گا، ان پانچ سالوں میں خالد پُوچھتا تو زید کہتا کہ ابھی پلاٹ وغیرہ فروخت نہیں ہوئے؟
جواب:
یعنی اس کا کاروبار پلاٹوں کا تھا اور خالد نے پلاٹوں کے لیے ہی پیسے دیے تھے، لیکن زید نے پلاٹوں میں نہیں لگائے ہیں، کسی اور کاروبار میں لگا دیے ہیں، اس کا یا کسی بھی بھائی چارے والے کاروبار کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ جو باتین لکھی نہیں ہوتی انکا فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے، اس کا صرف یہی طریقہ ہو سکتا ہے کہ وہ دونوں کسی عالم کے پاس بیٹھیں جو کاروبار جانتا ہو اس میں خالد کوئی خاص مخصوص رقم تو نہیں مانگ سکتا ہے، ہاں وہ زید پہ یہ الزام لگا سکتا ہے کہ اس نے یہ وعدہ کیا تھا، لیکن اس نے یہ رقم فلاں کام کی بجائے فلاں ادھار میں لگائی تو اس پہ اس سے گواہ مانگے جائیں گے ورنہ زید قسم کھا کر اس سے بری ہو گا ، جیسے عام شرعی طریقہ ہے۔
اگر عالم کو گواہ کی دلیل ٹھوس لگے تو وہ اس پہ تاوان مقرر کر سکتا ہے اور اگر گواہ نہ ہو اور زید قسم کھا لے تو وہ بری ہو جائے گا اور اصل رقم واپس کرے گا. واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ