سوال (2456)
کرپٹو کرنسی آن لائن کام کرنا کیا جائز ہے؟
جواب
کرپٹو کرنسی کا کام شرعی طور پر جائز نہیں.
۔شریعت میں اصل زر سونا اور چاندی ہی ہے۔ موجودہ دور میں کرنسی کی سب سے معتبر شکل کاغذی نوٹ ہیں جن کی اصل ایک وقت تک سونا تھا یعنی کسی ملک میں جتنا سونا ہوتا تھا وہ اتنی ہی مالیت کے کاغذی نوٹ چھاپتا تھا۔ اُس وقت تک ان کاغذی نوٹوں کی حیثیت سونے چاندی کی رسیدوں ہی کی طرح تھی۔ اس لیے کرنسی نوٹوں کے کام پر حرام کا حکم بیان کیا جاتا تھا۔
مثال کے طور پر ایک شخص کے پاس دس ہزار روپے اکاؤنٹ میں ہوں یا نقدی کی صورت میں ہوں تو وہ شخص گویا کہ دس ہزار کے سونے/ چاندی کا مالک بن گیا۔ جس کی رسید کے طور پر اس کے ملکیتی اکاؤنٹ میں مذکورہ رقم بھی ظاہر ہو رہی ہوتی یا نقدی کی صورت میں اس کے پاس کاغذی نوٹ موجود ہوتے اگر وہ اسے آگے فروخت کرنا چاہتا بطور تجارت اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ان رسیدوں کی بجائے سونا ٹھوس حالت میں اپنے قبضہ میں کرتا اور آگے اسی ٹھوس حالت میں فروخت کرتا۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا تھا اور سونے کی بجائے صرف رسیدوں کو ہی بیچ رہے ہوتے اور اسی رسید کو بوقت خرید و فروخت بھی استعمال کیا جاتا رہا ۔ چونکہ حکومتی جانب سے یہ سونے کا نعم البدل متصور کروایا گیا تھا۔
لہذا سونے چاندی کے تمام شرعی احکام کاغذی نوٹوں پر بھی جاری کیے جاتے تھے۔
یعنی نقد ہو ادھار نہ ہو اور ایک ہی جنس میں کمی و بیشی نہ ہو۔سونے کی سونے کے ساتھ اور چاندی کی چاندی کے ساتھ بیع جائز نہیں مگر یہ کہ وہ برابر برابر اور دست بدست ہوں خواہ عِوض میں دی جانے والی یہ دونوں چیزیں زیورات کی شکل میں ڈھلی ہوں یا نقدی کی صورت میں ہوں یا ایک ڈھلی ہو اور دوسری نقدی ہو اور خواہ دونوں بینک نوٹ کی صورت میں ہوں اور خواہ ان میں سے ایک بینک نوٹ کی صورت میں اور دوسری ڈھلی ہوئی یا نقدی کی صورت میں ہو۔ اس میں ڈالر ایک الگ جنس متصور ہو گی اور پاکستانی روپیہ الگ جنس ہو گا۔
“الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ٫
[صحيح مسلم ، المساقاة ، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا : 1587]
سونا سونے سے، چاندی چاندی سے، گندم گندم سے، جو جو سے، کھجور کھجور سے اور نمک نمک سے یکساں برابر برابر اور دست بدست ہونا چاہیے ہاں البتہ اگر یہ اصناف مختلف ہوں تو جس طرح چاہو بیچو بشرطیکہ سودا دست بدست ہو۔‘‘
لیکن اب صورتحال کچھ مختلف ہے۔ پہلے کاغذی نوٹوں کی اصل سونا ہوتا تھا اب ایسا نہیں ہے اب ان نوٹوں کو حکومتی ضمانت کے تحت رسیدوں کے طور پر جاری کیا جاتا ہے۔یعنی کسی ملک میں جتنے کاغذی نوٹ گردش کر رہے ہوں یہ ضروری نہیں کہ اس ملک کے سٹیٹ بنک کے پاس اتنا ہی سونا بھی ہو۔گو کہ حکومت زکوۃ کے لیے کاغذی نوٹوں کی بنیاد آج بھی چاندی ہی کو بناتی ہے۔ اس اعتبار سے سونا چاندی حقیقی زر ہیں اور ہر وہ چیز جو سونے چاندی کے نعم البدل کے طور پر استعمال کی جائے اسے اعتباری زر کہا جا سکتا ہے۔
کاغذی نوٹ کو یہ حیثیت چونکہ حکومت نے دی ہے اور یہ اسی کا اختیار ہے جیسا کہ امام نووی فرماتے ہیں :
“ويُكْرَهُ أَيْضًا لِغَيْرِ الْإِمَامِ ضَرْبُ الدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ وإن كَانَتْ خَالِصَةً لِأَنَّهُ مِنْ شَأْنِ الْإِمَامِ وَلِأَنَّهُ لا يؤمن فيه لغش وَالْإِفْسَادُ”
”امام کے علاوہ کسی کو درہم اور دینار بنانے کی اجازت نہیں چاہے وہ خالص ہی ہوں،کیونکہ یہ امام کا حق ہے اور اس دوسرے کو اس لئے بھی اجازت نہیں کہ اس میں جعل سازی اور بگاڑ کا اندیشہ ہے۔
[المجموع شرح المهذب، جلد : 5، ص:11]
اب یہ خود قانونی زر بن چکا ہے اور حکومت کوئی بھی چیز بطورِ زر اختیار کر سکتی ہے۔اب نوٹ پر لکھی اس عبارت”حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔” کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت اس کی ظاہری قیمت کی ذمہ دار ہے ۔
یعنی کاغذی نوٹ کو بطور زر جو حیثیت حاصل ہے اس کا تعلق حکومت کی ضمانت سے ہے۔
جہاں تک بات ہے کرپٹو کرنسی کے شرعی حکم کی تو اس کا معاملہ کاغذی نوٹوں سے بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ اس کی تو کوئی اصل ہے ہی نہیں۔ کاغذی نوٹ تو حکومت کی سرپرستی میں بطور زر حیثیت رکھتے ہیں لیکن”کرپٹو کرنسی” کی حکومت وقت کوئی ضمانت نہیں دیتی، بظاہر ہمیں قبضہ ظاہر کروایا جاتا ہے، لیکن یہ حقیقی معنوں میں قبضہ ہے ہی نہیں۔ کیونکہ قبضہ کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
ایک معنوی قبضہ اور دوسرا حسی
کرپٹو کرنسی میں حسی قبضہ تو نا ممکن ہے اور معنوی قبضہ بھی عارضی ہے یعنی اکاونٹ کا”یوزر نیم”اور اس کا”پاس ورڈ” جو کسی بھی وقت ہماری مرضی کے بغیر بند کیا جا سکتا ہے اور ہم اس پر کسی بھی فورم پر کوئی احتجاج یا دعوی نہیں کر سکتے۔
لہذا کرپٹو کرنسی کو چونکہ حکومتی طور پر بھی کوئی حیثیت حاصل نہیں تو اس کے اکاؤنٹ میں قبضہ کو بھی حقیقی معنی میں قبضہ شمار ہی نہیں کیا جائے گا۔ یہ فقط دھوکہ ہے۔
اور یہ خالص جوا بھی ہے۔جس میں بغیر کسی ضمانت و محنت کے رقم معلق کردی جاتی ہے ممکن ہے کہ وہ بلند ترین سطح پر جائے اور بہت نفع حاصل ہو اور ممکن ہے کہ اصل مال بھی ضائع ہو جائے۔ جس کی حکومت وقت بھی ضامن نہیں۔ جوے کی حرمت تو واضح نص میں ہے:
” يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَالۡمَيۡسِرُ وَالۡاَنۡصَابُ وَالۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّيۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ”
اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو
[المائدة:90]
یعنی کرپٹو کرنسی میں نہ تو قبضہ حسی ہے اور نہ ہی معنوی اور اسی طرح ملکیت بھی معلق ہے جو کسی بھی وقت ختم کی جا سکتی ہے اور کرپٹو کرنسی کا بظاہر مالک اس حوالے سے کوئی دعوی نہیں کر سکتا۔
لہذا ان قباحتوں کے پیش نظر موجودہ وقت میں رائج “کرپٹو کرنسی” کا کام بالکل حرام ہے.
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ