مرید کے ، وطن عزیز ایک چھوٹا سا لیکن چار دانگ عالم عظیم شہرت کا حامل شہر، اس کی شہرت ایک زمانے سے عالمی طاقتوں سے لے کر اقوام متحدہ کے ایوانوں تک تو سبھی جانتے ہیں لیکن اس شہر نے گزشتہ چند برسوں سے ایک نئی روایت کو بھی جنم دیا ہے۔ وہ روایت ہے یہاں کی سالانہ عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس ۔۔۔۔۔۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کانفرس کسی تنظیم ، مسجد یا مسلک کی طرف سے نہیں بلکہ یہاں کی ایک معروف سماجی و دینی شخصیت حافظ عثمان ربانی اور ان کے رفقا کی جانب سے منعقد ہوتی ہے۔

یہاں کے جی ٹی روڈ کے کنارے وسیع  ظفر شادی ہال میں اس سال بھی اس کا شایان شان انعقاد ہوا، جس کی کئی ہفتے زبردست تشہیری مہم چلائی گئی۔۔۔۔۔ ہر لحاظ سے شاندار و بہترین انتظامات کے بیچ تمام مسالک کی نمایاں شخصیات کے ساتھ مقبول و معروف صحافی و دانشور اوریا مقبول جان کی آمد و خطاب نے اسے چار چاند لگا دئیے ۔۔۔۔۔۔ مغرب کی نماز کے بعد شروع ہونے والی کانفرنس رات سوا 12 بجے مکمل ہوئی جب آخری مقرر جناب مولانا عطاء اللہ بندیالوی نے آج کے مذہب قادیاں کے ماننے والوں کو دعوت اسلام پیش کی کہ آج کے آپ لوگوں کو تو پتہ ہی نہیں کہ آپ کے بڑے نام نہاد خلیفے کیا عقائد اور نظریات رکھتے تھے؟ آپ تو بس محض بڑوں کی دیکھا دیکھی بن سمجھے ہی اس بدمذہب پر چل پڑے ہیں۔

اگر آپ کو سمجھ نہیں کہ آپ کے بڑوں اور سب سے بڑے نے کیا کیا، لکھا ؟اور بولا ہے ؟ تو ہم آپ کو بتاتے اور سمجھاتے ہیں کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ ان سے قبل اوریا مقبول جان منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوئے تو کہا کہ اس وقت ختم نبوت کے سب سے بڑے منکروں کا آج کا سب سے بڑا مرکز جرمنی ہے اور ساری وہاں کی دنیا اور ان کے سب اتحاد ان کے سر پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں، وہ بتانے لگے کہ ہمارے ہاں سے جو اس بدمذہب کو اختیار کرنے کا اعلان کرے اور کہے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے تو وہاں فوراً پناہ ملتی ہے لیکن ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے گروہ کی مسلسل ماہانہ فنڈنگ کریں اور اس کا آمدن سے مستقل حصہ رکھا جاتا ہے، جو یہ دینا بند کرے یا کم کرے تو اس کا کریا کرم ہو جاتا ہے، یہ اتنا گھناؤنا اور گہرا نیٹ ورک ہے کہ سمجھنا آسان نہیں، ہمیں اسے سمجھ کر اس کا توڑ کرنا ہو گا۔

درجنوں کتابوں کے مصنف اور عظیم دانشور مولانا امیر حمزہ نے مرزا غلام احمد (ل )کی کتابوں اور مختلف دیگر اطراف سے فتنہ قادیان کا زبردست آپریشن کیا اور ایسے حوالے دئیے کہ سب کی آنکھیں کھول دینے اور اس فتنے کا ناطقہ بند کر دینے کے لیے کافی شافی تھا۔ اگر کوئی اس فتنے کا حامل بھی یہ سن لے تو کانوں کو ہاتھ لگا کر لازمی فوری اسلام قبول کر لے ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اس وقت سب حیران رہ گئے جب اچانک مرکزی مسلم لیگ کے صدر خالد مسعود سندھو اچانک تشریف لائے کہ کانفرنس کی کشش انہیں بھی کھینچ لائی، مختصر خطاب میں دفاع ختم نبوت پر جامع گفتگو کی۔۔۔۔۔ سید سلمان گیلانی نے اپنے مخصوص انداز میں اپنا ختم نبوت پر خوبصورت کلام بھی سنایا اور ختم المرسلین محمد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں منقبت بھی خوب پیش کی۔ امیر جماعت اسلامی جاوید قصوری نے اہل پاکستان و علماء کے ختم نبوت میں کردار اور قربانیوں کا بھرپور ذکر کیا،

حافظ ذاکر الرحمٰن صدیقی نے قرآن و حدیث سے ختم نبوت کے دلائل اور حوالے پیش کیے مولانا فیاض بشیر رہنما منہاج القرآن نے قرآنی آیات و احادیث سے ختم نبوت کی تشریح و توضیح کی اور اس پر دلائل کے ساتھ مکمل دستاویز پیش کرکے نیا جہاں سب پر کھول دیا، اسی دوران میزبان حافظ عثمان ربانی کو انہوں نے ختم نبوت پر ایک عظیم الشان کتاب بطور ہدیہ پیش کی جو تمام مہمانان نے مشترکہ طور انہیں تھمائی، راقم الحروف نے آغاز میں ختم نبوت کی تاریخ اور انگریز کی اس سازش اور ان کے موجودہ حالات و واقعات بیان کئے، اس پر پاکستان کے عظیم کردار پر روشنی ڈالی اور دنیا کے پاکستان پر دباؤ کا پول کھولا کہ ہمارے دشمن ہمارے اس کردار پر کس قدر سیخ پا ہیں اور ہمیں اسی وجہ سے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے، پاکستان کے اس فیصلے کی وجہ سے ہی سعودی عرب میں قادیانیوں پر پابندی لگی ورنہ انہیں ایک مسلم فرقہ سمجھ کر وہاں داخلے تک کی اجازت تھی۔

اس کے بعد یہ قدم کویت نے اٹھایا۔ یہ عظیم کام اس ملک نے انجام دیا ۔۔۔۔۔کئی شعرا اور نعت خواں حضرات نے بہترین کلام پیش کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ختم نبوت سے خوب محبت کا اظہار کیا۔۔۔۔۔ 5 گھنٹے پر محیط یہ کانفرنس اتنی بھرپور اور معلومات افزا رہی کہ آخر دم تک ہال کھچا کھچ بھرا رہا اور باہر بھی بے شمار لوگ سکرینوں پر پروگرام میں شریک رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ختم نبوت پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تاریخ کے دیگر کرداروں کی طرح کٹ مرنے اور پہرہ دینے کا عزم  کرکے نکلے۔

علی عمران شاہین