صحیح مسلم کی ایک روایت پر پوسٹ بنا کر شیئر کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی میں دو رکعت نفل نماز ادا کی۔ ایک منکر حدیث نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ بنو امیہ کی بنائی ہوئی منگھڑت روایت ہے۔ اس دور میں مسجد اقصی تھی ہی نہیں۔
چلیں، حدیث کا تو انکار کر دیا لیکن قرآن مجید کا کیسے انکار کریں گے! خود قرآن مجید نے مسجد اقصی کی ترکیب استعمال کی ہے کہ اللہ عزوجل اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئے۔ تو یہ کون سی مسجد اقصی تھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جایا گیا۔ در اصل اس دور میں یہ ایک چار دیواری میں موجود احاطہ تھا کہ جسے حرم شریف یا ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں۔ اس کا کل رقبہ تقریبا 297 کنال ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت مسجد حرام کی تعمیر بھی نہ تھی۔ صرف خانہ کعبہ موجود تھا۔ مسجد حرام بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تعمیر ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دور ابو بکر رضی اللہ عنہ میں خانہ کعبہ کے گرد محض صحن موجود تھا کہ جسے مطاف کہہ سکتے ہیں۔ اسی کو قرآن مجید نے مسجد حرام کہا ہے۔ تو مسجد کسی تعمیر یا عمارت کا نام نہیں ہے بلکہ مقام عبادت ہے۔
اگر پانچ مرلے کے پلاٹ کے گرد ایک فٹ اونچی دیوار ڈال کر اسے مسجد کے طور وقف کر دیا ہے تو یہ مخصوص احاطہ مسجد ہی ہے۔ پاکستان میں قومی شاہراؤں کے پٹرول پمپس اور گاؤں دیہات میں ایسی سینکڑوں مساجد آباد ہیں کہ جن کا صرف احاطہ موجود ہے۔ مسجد کے لیے تعمیر یا عمارت کا ہونا شرط نہیں ہے اور نہ ہی اس کے معنی ومفہوم میں داخل ہے۔

حافظ محمد زبیر