لبرلز کے قوانین انکو معاشرے میں isolate کرنے کے مدعی ہیں بشرطیکہ لبرلز ان اصولوں کو مانیں، حقیقت یہ ہے کہ لبرلزم ایک باغی مزاج کا دوسرا نام ہے جس کے ہاں کوئی “اصول”نام کی چیز ہی نہیں۔
لبرلز مفکرین کے ہاں جو اصول ہے ” ہر بندے کا قانون اور میعار اپنا ہے نہ کہ وہ دوسروں کے مشترکہ قوانین پر عمل کرنا کرنے کا پابند ہے ” یہ اصول حقیقتا انکو دوسروں سے الگ کرنے اور معاشرے میں تنہا کرنے کیلئے سب سے بڑا موجب ہے، کیونکہ معاشرے اور قومیں یا ریاستیں اگر بین الاقوامی یا اندرونی معاہدات اور تحفظات پر قائم ہیں تو اسکے پیچھے ایک ہی وجہ ہے وہ ایک دوسرے کے مشترکہ اور متفقہ اصولوں اور تحفظات پر باہم عمل کرنے کے پابند ہیں۔
مثلاً اگر اس وقت جو کہ نیٹو پاور(جنگ عظیم دوئم کے فاتحین) اور اقوام متحدہ آرگنائزیشن کا دور ہے،
کوئی بھی ملک تمام ممالک سے جدا ہوکر اپنے آپ کو اس طرح خود مختار ڈکلیئر کرتا ہے کہ ہمارے اپنے قوانین ہیں ہم جس کے ساتھ چاہیں اپنی مرضی کے مطابق معاملات ڈیل کریں گے تو کیا خیال ہے وہ اس طرح چل سکیں گے؟
دوسرے تو دور کی بات اگر دوست اور حلیف ممالک کے ساتھ بھی کسی ملک کا رویہ ایسا رہا تو وہ بھی ان کے ساتھ نہ چل سکے۔
یا اگر میں یہ کہوں کہ کوئی بھی ملک یا کمیونٹی اپنے درمیان متفقہ قوانین نہیں بناتی تو وہ کیسے اکٹھی رہ سکتی ہے، ہم نے جمھوریت سے پہلے یورپ میں طوائف الملوکی دیکھی، برصغیر کو 600 کے قریب ریاستوں میں بٹے ہوئے دیکھا وجہ انکے پیچھے یہ تھی کہ انکے پاس کوئی ایسا متفقہ اور باھم مفاد پر قائم کوئی مشترکہ اصول و ضوابط کا چارٹ نہیں تھا۔
کوئی دو انسان بھی آپس میں ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھے بنا اکٹھے نہیں رہ سکتے، تو اس اصول کی کیا مجال ہے کہ ہر شخص اپنے خود ساختہ قوانین کا پابند ہے، یہ ایک “فرد”کے لئے تو کافی ہوسکتے ہیں لیکن کسی “معاشرے” کیلئے نہیں۔

لبرلزم خواہشات اور شہوات کو برائے نام آزادی پروموٹ کرتا ہے جبکہ ایک خاندان،معاشرہ اور مذھب ان خواہشات کی بتدریج قربانی کو مانگتا ہے اور اسکا مطالبہ کئیے بنا چل ہی نہیں سکتا جس سے لبرلز بھاگتے ہیں اور ایسے قوانین بنانے پر مجبور ہوتے ہیں، آپ دیکھیں لبرلز خاندانی نظام، معاشرے کے فلاح و خیر پر مبنی قوانین اور مذھب کی اخلاقیات سے بیزار ہیں اور انکی یہ بیزاری انکو مزید متعصب بنانے میں سب سے بڑا موجب ہے، حالانکہ یہ چیزیں تو انسانیت اور نیچریت کے دعوے کرنے والے پھر تمام مذاھب بھی مانتے تھے جن golden rolls کا لبرلز انکار کرتے ہیں، چہ جائیکہ ان سے مذھبی عقائد کے متعلق خیر مقدم کی امید لگائی جاسکے۔

انسان” اُنس ” سے نکلا ہے جسکا معنی ہے باہمی محبت اور پیار اور کوئی بھی انسان اس وقت تک انسانیت میں کمال نہیں پاسکتا جب تک وہ باہمی محبت اور رواداری کا قائل نہیں ہوجاتا،
اگر لبرلز لوگوں کو کہا جائے کہ جو تم نے قانون رکھا ہے اسکو شخصی معاملات میں بھی اپلائے کرکے زرا دیکھو، کوئی بھی لبرل عورت کے بنا نہیں رہ سکتا، خود لبرلز کمیونٹی بھی اگر باہمی مفادات پر قائم نہ ہو تو یہ کیسے جمہوری نظام میں احتجاج کرنے کا حق رکھی سکتی ہے کیونکہ جمہوریت ہے ہی میجورٹی اور لوگوں کے مشترکہ مفادات پر قائم۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان ہوں یا دیگر حیوانات وہ جب بھی ایک کمیونٹی اور معاشرے میں رہنا چاہیں گے تو انہیں دوسروں کے حقوق کا بھی خیال کرنا ہوگا۔ اور حقوق کی پاسداری کیلئے ہی قوانین بنائے جاتے ہیں تاکہ کوئی باغی دوسروں کی حق تلفی نہ کرسکے۔
اور قوانین ہمیشہ میجورٹی کے مفادات اور اکثریت کی رائے سے ہی وضع کیے جاتے ہیں جسکو جدید اصطلاح میں ” رائے عامہ” سے بھی موسوم کیا جاتا ہے اور یہی چیز جمہوریت یا شورائیت میں ہے،

عمیر رمضان