ماہ رمضان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں ہوا، رمضان المبارک کی فضیلت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیثِ مبارکہ منقول ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :
1: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُ.( صحیح بخاری : 3103).

ترجمہ : جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔
2 : آپ صلی الله علیه و سلم کا فرمان ہے:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ.
( صحیح بخاری : 1910).

’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

3 : الصوم جنۃ یسجن بھا العبد من النار)
(صحیح الجامع، :3847)

ترجمہ : روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔
ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

(الصوم جنة من عذاب الله ) (صحیح الجامع، ح:3844)

’’روزہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے (بچاؤ کی ) ڈھال ہے۔
روزے کب فرض ہوئے؟
رمضان المبارک کے روزے دو ہجری میں فرض کیے گئے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگي میں نو برس رمضان المبارک کے روزے رکھے ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نورمضان المبارک کے روزے رکھے، اس لیے کہ ہجرت کے دوسرے سال شعبان میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تھے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ ہجری ربیع الاول کے مہینے میں فوت ہوئے تھے اھـ ۔ دیکھیں المجموع ( 6 / 250 ) ۔
روزوں کی بعض حکمتیں :

1 – روزہ اللہ تعالی کی انعام کردہ نمعتوں کا شکرادا کرنے کا وسیلہ ہے ، روزہ کھانا پینا ترک کرنے کا نام ہے اورکھانا پینا ایک بہت بڑی نعمت ہے ، لھذا اس سے کچھ دیر کےلیے رک جانا کھانے پینے کی قدروقیمت معلوم کراتا ہے ، کیونکہ مجھول نمعتیں جب گم ہوں تو وہ معلوم ہوجاتی ہیں ، یہ سب کچھ اس کے شکر کرنے پر ابھارتا ہے ۔

2 – روزہ حرام کردہ اشیاء کو ترک کرنے کا وسیلہ ہے ، کیونکہ جب نفس اللہ تعالی کی رضامندی کےلیے اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتا ہوا کسی حلال چيز سے رکنے پر تیار ہوجاتا ہے تووہ حرام کردہ اشیاء کو ترک کرنے پر بالاولی تیار ہوگا ، لھذا اللہ تعالی کے حرام کردہ کاموں روزہ بچاؤ کا سبب بنتا ہے۔

3 – روزہ رکھنے میں شھوات پر قابو پایا جاتا ہے ، کیونکہ جب نفس سیر ہوا اوراس کا پیٹ بھرا ہوا ہو تو وہ شھوات کی تمنا کرنے لگتا ہے ، اورجب بھوکا ہو توپھر خواہشات سے بچتا ہے ، اور اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :

( اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو بھی نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہے وہ شادی کرے ، کیونکہ شادی کرنا آنکھوں کونیچا کردیتا ، اورشرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے ، جوشخص نکاح کی طاقت نہ رکھے تواسے روزے رکھنے چاہیيں ، کیونکہ یہ اس کے لیے ڈھال ہیں۔)

4 – روزہ مساکین پر رحمت مہربانی اورنرمی کرنے کا باعث ہے، اس لیے کہ جب روزہ دارکچھ وقت کے لیے بھوکا رہتا ہے توپھر اسے اس شخص کی حالت یاد آتی ہے جسے ہروقت ہی کھانا نصیب نہيں ہوتا، تووہ اس پرمہربانی اوررحم اوراحسان کرنے پرابھارتا ہے، لھذا روزہ مساکین پر مہربانی کا باعث ہے۔

5 – روزے میں شیطان کے لیے غم وغصہ اورقھر اور اس کی کمزوری ہے ، اوراس کے وسوسے بھی کمزور ہوجاتے ہیں جس کی بنا پر انسان معاصی اورجرائم بھی کم کرنے لگتا ہے، اس کا سبب یہ ہےکہ جیسا کہ حدیث میں بھی وارد ہے کہ شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے، تو روزے کی بناپر اس کی یہ گردش والی جگہیں تنگ پڑجاتی ہیں جس سے وہ کمزور ہوجاتا ہے اوراس کے نتیجے میں شیطان کا نفوذ بھی کمزور پڑجاتاہے۔

شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

بلاشبہ کھانے پینے کی وجہ سے خون پیدا ہوتا ہے، اس لیے جب کھایا پیا جائے تو شیطان کی گردش کی جگہوں میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے جوکہ خون ہے اورجب روزہ رکھا جائے تو شیطان کی گردش والی جگہیں تنگ ہوجاتی ہيں ، جس کی بنا پر دل اچھائي اوربھلائي کے کاموں پر آمادہ ہوتا اوربرائي کے کام ترک کردیتا ہے۔ کچھ کمی بیشی کےساتھ نقل کیا گيا ہے۔

دیکھیں مجموع الفتاوی ( 25 / 246 )

6- روزے دار اپنے آپ کو اللہ سبحانہ وتعالی کی مراقبت ونگہبانی پرتیار کرتا ہے کہ اللہ تعالی کا اس کی نگرانی اورمراقبت کررہا ہے جس کی بنا پر وہ اپنے نفس کی خواہشات کو ترک کردیتا ہے حالانکہ اس پرچلنے کی اس میں طاقت بھی ہوتی ہے لیکن اسے علم ہے کہ اللہ تعالی اس پر مطلع ہے تووہ ایسے کام کرنے سے گريز کرتا ہے۔

7- روزے میں دنیا اوراس کی شھوات سے زہد پیدا ہوتا ہے، اور اللہ تعالی کے پاس موجود اجر و ثواب میں ترغیب پائي جاتی ہے۔

8- اس میں مومن کثرت اطاعت کا عادی بنتا ہے، کیونکہ روزہ دار روزہ کی حالت میں زيادہ سے زيادہ اطاعت وفرمانبرداری کرتا ہے جس کی بنا پروہ عادی بن جاتا ہے۔

روزہ کی مشروعیت کی چند ایک حکمتیں ہم نے آپ کے سامنے رکھی ہیں اس کےعلاوہ بھی بہت ساری حکمتیں پائي جاتی ہیں، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کو روزہ کے مقاصد کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، اوراچھے اور احسن انداز میں عبادت کرنے پرمدد فرمائے۔

دیکھیں : تفسیر السعدی صفحہ ( 116 ) حاشیۃ ابن قاسم علی الروض المربع ( 3 / 344 ) الموسوعۃ الفقھیۃ ( 28 / 9 ) ۔

رمضان میں کرنے والے کام :
1 : روزہ:۔
ان میں سب سے اہم عمل،روزہ رکھنا ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : إِلا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ، يدع طعامه وشهوته من أجلي ، للصائم فرحتان : فرحة عند لقاء ربه ولخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح المسك ( صحیح مسلم : 163)

“انسان جو بھی نیک عمل کرتا ہے ،اس کا اجراسے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے۔لیکن روزے کے بابت اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ یہ عمل(چونکہ) خالص میرے لیے ہے،اس لیے میں ہی اس کی جزادوں گا۔(کیونکہ) روزے دار صرف میر ی خاطر اپنی جنسی خواہش،کھانا ور پینا چھوڑتا ہے۔روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں:ایک خوشی اسے روزہ کھولتے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اسے اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملے گا اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے.
2 : قیام اللیل:۔
دوسرا عمل،قیام اللیل ہے۔یعنی راتوں کو اللہ کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں عجزونیاز کا اظہار کرنا۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عبادالرحمان(رحمان کے بندوں) کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ،ان میں ایک یہ ہے:

وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِيَاماً (الفرقان:25/63)

“ان کی راتیں اپنے رب کے سامنے قیام وسجود میں گزرتی ہیں”
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ  (صحیح بخاری : 2009 صحیح مسلم:759)

“جس نے رمضان(کی راتوں) میں قیام کیا،ایمان کی حالت میں ،ثواب کی نیت(اخلاص) سے،تو اسکے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے”
3: صدقہ وخیرات:۔
تیسرا صدقہ وخیرات کرنا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -اجود الناس وَكَانَ اجود مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْانَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اجود بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ‏.‏(صحیح مسلم : 2208)

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے اور آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی۔۔۔اس مہینے میں(قرآن کا دور کرنے کے لیے) آپ سے جب جبرئیل علیہ السلام ملتے،تو آپ کی سخاوت اتنی زیادہ اور اس طرح عام ہوتی جیسے تیز ہوا ہوتی ہے ،بلکہ اس سے بھی زیادہ”

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں عام دنوں کے مقابلے میں صدقہ وخیرات کا اہتمام کرنا چاہیے۔
4 : ۔روزے کھلوانا:۔
ایک عمل روزے کھلوانا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا” (جامع ترمذی  : 807)

“جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا،تو اس کو بھی روزے دار کی مثل اجر ملے گا،بغیر اس کے کہ اللہ روزے دار کے اجر میں کوئی کمی کرے”
ایک دوسری حدیث میں فرمایا:

مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ (صحیح الترغیب 2901)

“جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا یا کسی مجاہد کوتیار کیا(سامان حرب دے کر) تو اس کے لیے بھی اس کی مثل اجر ہے”
5 ۔کثرت تلاوت:۔
قرآن کریم کا نزول رمضان المبارک میں ہوا،اس لیے قرآن کریم کا نہایت گہراتعلق رمضان المبارک سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کادور فرمایا کرتے تھے اور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ بھی اس ماہ میں کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کااہتمام کرتے تھے،ان میں سے کوئی دس دن میں،کوئی سات دن اور کوئی تین دن میں قرآن ختم کرلیا کرتا تھا اور بعض کی بابت آتا ہے کہ وہ اس سے بھی کم مدت میں قرآن ختم کرلیتے تھے۔
6  ۔اعتکاف:۔
رمضان کی ایک خصوصی عبادت اعتکاف ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کابھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔رمضان کے آخری دس دن ،رات دن مسجد کے ایک گوشے میں گزارتے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم فرمادیتے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی پابندی سے اعتکاف فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپ اعتکاف نہ بیٹھ سکے،تو آپ نے شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا:(صحیح بخاری) اور جس سال آپ کی وفات ہوئی،اس سال آپ نے رمضان میں دس دن کی بجائے 20 دن اعتکاف فرمایا:(صحیح بخاری :  2044)

عبد العزیز آزاد